حضرت محمد ﷺ جب تمام انبیا ء علیہ السلام سے افضل ہیں تو ان کے بجائے حضرت عیسی علیہ السلام کو کیو ں آسمانوں پر ا ٹھا یا گیا ؟ اور اگر حضرت عیسیعلیہ السلام کو حقیقتا آسما نوں پر اٹھا یا گیا ہے تو دیگر انبیا ء علیہ السلام کے بجا ئے خا ص طور پر حضرت عیسیعلیہ السلام ہی کو کیو ں آ سمانو ں پر اٹھا یا گیا ؟
اللہ تعا لیٰ کی رحمت اور علم ہر چیز سے وسیع ہے ۔ اس نے ہر چیز کا قوت و غلبہ کے سا تھ احا طہ کر رکھا ہے اس کی حکمت با لغہ اس کا ارادہ نا فذہ اور اس کی قدرت کا ملہ ہے اس نے اپنے جن بندو ں کو چا ہا انبیا ء ورسل کے طور پر منتخب کر کے بشیر و نذیر بنا کر معبوث فرمادیا بعض کو بعض پر درجا ت میں فضیلت دی اور اپنے فضل رحمت سے ہر ایک کو نماياں امتیاز ات سے سرفراز فر مایا حضرت ابرا ہیم اور حضرت محمد ﷺ کو خلت سے نوا زا ہر نبی کو ان کے زمانے کے منا سب حا ل آیا ت معجزات عطا کیے تا کہ ان کی امت کے سا منے حجت تمام ہو جا ئے ان سب امو ر میں ان کی حکمت و عدل کار فر ما ہے اس کے فیصلے کو کو ئی ٹا ل نہیں سکتا وہ عزیز و حکیم اور لطیف و خبیر ہے ۔ ہر انفرا دی فضیلت مو جب افضلیت نہیں ہے حضرت عیسی کو جو زندہ آسمانوں پر اٹھانے کی خصوصیت سے نوازا تو یہ اللہ تعالیٰ ٰ کے ارادہ و حکمت کے مطا بق ہے اس کے یہ معنی نہیں کہ اس سے آ پ تمام رسو لو ں سے افضل ہو گئے اور ابراہیم علیہ السلام محمد ﷺ اور نو ح علیہ السلام سے بھی آگے بڑھ گئے کیو نکہ ان انبیا ء کرا م علیہ السلام کو جن خصو صیا ت وامتیازا ت سے نوا زا گیا ان کی وجہ سے وہ یقینا حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے افضل ہیں ان فضیلتوں کا انحصا ر اللہ تعالیٰ ٰ کی مر ضی و مشیت پر ہے وہ جس طرح چا ہتا ہے تدبیر فر ماتا ہے وہ جو کر تا ہے اس کے با رے میں اس سے باز پر س نہیں کی جا سکتی کیو نکہ اس کا علم بھی کما ل اور اس کی حکمت بھی کما ل ہے اور پھر ان فضیلتوں سے عمل و عقیدہ کا تعلق نہیں ہے بلکہ ان مسا ئل پر غو ر کر نے وا لا بسا اوقات حیرا نی و پر یشا نی میں مبتلا ہو جا تا ہے ریب و تشکیک کا اس پر غلبہ ہو جاتا ہے مرد مو من کا شیوہ یہ ہو تا ہے کہ وہ احکا م الٰہی کے سا منے سرا طا عت خم کر دیتا ہے اور عقیدہ و عمل سے متعلق امو ر میں کو شش کر تا ہے حضرات انبیا ء علیہ السلام و مر سلین کا یہی منہج ہے اور خلفا ء را شدین اور امت کے ہدا یت یا فتہ اسلا ف کا یہی طر یق ہے ،
هذا ما عندي والله اعلم بالصواب