رسول اللہﷺ کے متعدد عورتوں سے شادی کرنے میں کیا حکمت تھی؟
اللہ تعالیٰ ٰ ہی کی حکمت بالغہ ہے۔اس نے اپنی حکمت کے تحت سابقہ شریعتوں میں بھی اور ہمارے نبی کریمﷺ حضرت محمد ﷺ کی شریعت میں بھی مردوں کو یہ اجازت دی ہے کہ وہ ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی کرسکتے ہیں۔تعدد ازواج نبی ﷺ ہی کا خاصہ نہ تھا۔حضرت یعقوب علیہ السلام کی دو بیویاں تھیں۔حضرت سلیمان بن دائود علیہ السلام کی ننانوے بیویاں تھیں۔ایک بار اس اُمید سے کہ آپ ایک رات میں ان سب کے پاس گئے کہ ان میں سے ہر ایک ایک بچے کو جنم دے گی۔جو بڑے ہوکر اللہ کے راستے میں جہاد کریں گے۔
تعدد ازواج شریعت میں کوئی نئی بات ہے۔ نہ یہ عقل وفطرت کے تقاضا کے خلاف ہے۔بلکہ یہ عین حکمت ومصلحت کے تقاضا کے مطابق ہے۔اعدادوشمار سے ثابت ہے کہ عورتوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ اور بسا اوقات مرد میں اس قدر قوت وطاقت ہوتی ہے۔جس کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی کرے۔تاکہ وہ حرام کی بجائے حلا ل طریقے سے اپنی نفس کی خواہش پوری کرے۔بسا عورت کو حیض ونفاس جیسے امراض کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جس کی وجہ سے مرد اپنی جنسی خواہش کی تکمیل نہیں کرسکتا۔اور اب دو ہی صورتیں باقی ہوتی ہیں۔ یا تو اس کے پاس دوسری بیوی ہو یا وہ حرام کاری کرے۔ شریعت اس صورت میں تعدد ازواج ہی کی حمایت کرسکتی ہے تو تعدد ازواج جب عقلی فطری اور شرعی طور پر جائز ہے۔ سابقہ انبیائے کرام کا عمل بھی اس کے مطابق ہے۔اور کبھی اس کی شدید ضرورت وحاجت پیش آجاتی ہے تو پھر اس میں تعجب کی کونسی بات ہوتی ہے۔اگر ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ نے ایک سے زیادہ شادیاں کی ہیں!
آنحضرت ﷺ کی ان تعدد ازواج کے بارے میں علماء نے اور بھی کئی حکمتیں اور مصلحتیں بیان فرمائی ہیں۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ آپﷺ اس طرح اپنے اور بعض قبائل کے درمیان تعلقات کو مضبوط ومستحکم کرنا چاہتے تھے۔ تاکہ ان مضبوط روابط کی وجہ سے اسلام کو تقویت حاصل ہو۔ اس سے اسلام کی نشرواشاعت میں مدد ملے کیونکہ رشتہ مصاہرت سے اخوت محبت اور الفت کے جذبات میں اضافہ ہوتا ہے۔دوسری مصلحت یہ ہے کہ آپﷺ بعض بیوہ خواتین کو سہارا اور ان کے فوت شدہ شوہروں کو نعم البدل مہیا کرنا چاہتے تھے تاکہ ان کی دلجوئی کی جاسکے۔ اور ان کے مصائب کو کم کیاجاسکے۔اس طرح آپ ﷺ نے امت کے لئے یہ سنت قائم کی کہ وہ ان خواتین سے احسان کا سلوک کرتے ہوئے انہیں اپنے حبالہ عقد میں لے لیں جن کےشوہر جہاد کرتے ہوئے شہید ہوگئے ہوں۔ تیسری مصلحت انسانی میں اضافہ او رامت کی تعداد کو بڑھانا مقصود تھا تاکہ آنے والی نسل دین کی نصرت اور نشر واشاعت کے پرچم کو تھام سکے۔
نبی کریمﷺ کے تعدد ازواج کے پس پردہ محض جذبہ شہوت کا رفرمانہ تھا۔ اس کی ایک بہت بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کےسوا کسی بھی دوسری کنواری یاچھوٹی عمر کی خاتون سے شادی نہیں کی بلکہ دیگر تمام ازواج مطہرات شوہر دیدہ تھیں۔اگرتعدد ازواج سے آپﷺ کا مقصود محض جنسی جذبہ کی تسکین ہوتاتو آپﷺ یقیناً کنواری خواتین سے شادیاں فرماتے خصوصاً ہجرت کے بعد جبکہ آپﷺ کو بہت سی فتوحات حاصل ہوگئیں تھیں۔ اسلامی ریاست قائم ہوگئی تھی۔مسلمانوں کی تعداد میں بہت اضافہ اور انہیں بہت شوکت وقوت حاصل ہوگئی تھی۔اور ہر قبیلہ آپ ﷺ سے رشتہ مصاہرت کا خواہش مند بھی تھا۔ اور وہ چاہتا تھا کہ آپﷺ اس میں ضرور شادی کریں لیکن آپﷺ نے ایسا نہ کیا بلکہ آپﷺ نے بلند ترین مقاصد اور اعلیٰ ترین اغراض کے پیش نظر شادیاں کیں جیسا کہ ازواج مطہرات میں سے ایک ایک کے حالات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے نیز اگر آپﷺ کامقصد محض جنسی جذبہ کی تسکین ہوتا تو آپﷺ یہ شادیاں شباب(جوانی) وقوت کے دور میں کرتے حالانکہ اس دور میں آپﷺ کے پاس ایک ہی زوجہ کریمہ یعنی خدیجہ بنت خویلد تھیں۔جو آپﷺ سے عمر میں بڑی تھیں۔اوراگر یہ بات ہوتی تو آپﷺ ازواج مطہرات سے عدل وانصاف کا معاملہ بھی نہ فرماتے۔ کیونکہ وہ حسن وجمال کے اعتبار سے ایک دوسری سے مختلف تھیں۔لیکن آپﷺ کی سیرت مطہرہ سے جو بات معلوم ہوتی ہے۔وہ ازواج مطہرات کے مابین کمال درجے کا عدل وانصاف ہے جو آپﷺ کے کمال عفت امانت عہد شباب وکبرسن ہر حال میں کمال حفاظت وصیانت پاک دامنی اور بلندی اخلاق پردلالت کناں ہے۔ اور اس بات کا بین ثبوت کہ آپﷺ نے تمام حالات میں حد درجہ استقامت کاثبوت دیا جس کے آپﷺ کے دشمن بھی قائل تھے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب