الله تعالیٰ ٰ نے اپنے رسول حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو تمام جنوں اور انسانوں کی طرف بشیر ونزیر داعی الی اللہ اور سراج منیر بنا کر مبعوث فرمایا نیز آپ کو ہدایت رحمت دین حق اور اس شخص کے لئے دنیا وآخرت کی سعادت بنا کر مبعوث فرمایا جو آپ پر ایمان لائے آپ سے محبت کرے اور آپ کے نقش راہ کی پیروی کرے۔آپ نے پیغام رسالت کو پہنچادیا امانت کو ادا فرمادیا امت کی خیر خواہی فرمائی اور اللہ تعالیٰ ٰ کے راستہ میں اس طرح جہاد کیا جس طرح جہاد کرنے کا حق ہے اللہ تعالیٰ ٰ آ پ کو بہترین احسن اور اکمل جزا سے سرفراز فرمائے!
رسول اللہ ﷺ کی اطاعت آپ کی امر کی فرمانبرداری اور آپ کے نہی سے اجتناب اسلام کے اہم فرائض میں سے ہے۔اور آپ کی رسالت کا یہی مقصد ہے۔ آپﷺ کی نبوت ورسالت کی شہادت کا تقاضا ہے کہ آپ سے محبت کی جائے آپﷺ کی اتباع کی جائے'ہرمناسبت اور آپ کے زکر خیر کے موقعہ پر آپ کی ذات گرامی پر درود بھیجا جائے کہ اس طرح آپ ﷺ کا کچھ حق بھی ادا ہوگا۔اور اللہ تعالیٰ ٰ نے آپﷺ کو ہماری طرف مبعوث فرما کر ہم جو احسان عظیم فرمایا اس کا کچھ شکر بھی ادا ہوجائےگا۔
حضرت محمد ﷺ کی ذات گرامی پر درود شریف پڑھنے کے بہت سے فوائد ہیں مثلا اللہ تعالیٰ ٰ کے حکم کی اطاعت ہوجاتی ہے۔اللہ کے ساتھ موافقت ہوجاتی ہے۔نیز اس کے فرشتوں کے ساتھ بھی موافقت ہوجاتی ہے:
ارشاد باری تعالیٰ ٰ ہے:
''اللہ اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ مومنو ! تم بھی پیغمبر پر درود اور سلام بھیجا کرو۔''
درود شریف پڑھنے سے بے حد اجر وثواب ملتا ہے دعاء کی قبولیت کی امید ہوجاتی ہے درود شریف پڑھنے سے برکت حاصل ہوتی ہے اور نبی کریمﷺ کی محبت میں دوام اضافہ اور ترقی ہوجاتی ہے۔درود شریف پڑھنے سے بندے کو ہدایت اور اس کے دل کو زندگی نصیب ہوتی ہے جو انسان بکثرت درود شریف پڑھے گا۔اور آپ ﷺ کا کثرت سے زکر کرے گا اس کے دل میں نبی کریمﷺ کی محبت کو غلبہ حاصل ہوجائےگا۔حتیٰ کہ اس کے دل میں آپ ﷺکے ارشادات کے بارے میں کوئی تعارض اور آپ کے لائے ہوئے دین وشریعت کے بارے میں کوئی شک باقی نہ رہے گا۔
بہت سی احادیث مبارکہ سے یہ ثابت ہے۔کہ رسول اللہ ﷺ نے درودشریف پڑھنے کی بہت ترغیب دلائی ہے۔چنانچہ ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےروایت ہے۔کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھے گا اللہ تعالیٰ ٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔''
حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
''میری قبر کو عید اور اپنے گھروں کو قبریں نہ بنانا اور مجھ پر درود پڑھنے رہنا تم جہاں کہیں بھی ہوگے تمہارا سلام مجھ پرپہنچ جائے گا۔ ''
نیز آپ نے فرمایا:
''اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس کے پاس میرا زکر ہو اور وہ مجھ پردرود نہ پڑھے۔''
شریعت کا حکم ہے کہ نبی ﷺ پر تشہد میں خطبوں میں دعاؤں میں استغفار میں اذان کے بعد مسجد میں داخل ہوتے وقت مسجد سے نکلتے وقت آپ کے زکر خیر کے وقت اور دیگر مواقع پردرود شریف پڑھا جائے جب کسی کتاب' تصنیف رسالہ یا مقالہ میں آپ ﷺ کا اسم گرامی آئے تو اس کے ساتھ درودشریف لکھنے کی بے حد تاکید ہے۔جیسا کہ سابقہ دلائل سے ثابت ہوتا ہے۔اور پھر درود شریف کے الفاظ پورے لکھنے چاہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ٰ نے جو ہمیں درود پڑھنے کا حکم دیا ہے۔تو اس سے مراد مکمل درود ہے۔قارئین کو بھی چاہیے کہ وہ جب بھی آپﷺ کا کسی کتاب یا رسالہ میں اسم پاک پڑھیں تو درود شریف بھی پڑھیں درودشریف لکھتے ہوئے صلاۃ وسلام کے مکمل الفاظ لکھنے چاہیں۔اورصرف کلمہ (ص) یا (صلم) یا اس طرح کے دیگر رموز پر اکتفاء نہیں کرنا چاہیے جیسا کہ بعض اہل قلم اور مصنفین کی یہ عادت ہے کیونکہ اس طرح اللہ تعالیٰ ٰ کے ارشاد (صلوا عليه وسلموا تسليما) کی مخالفت لازم آئے گی۔(ص) یا (صلم) لکھنے سے مقصود حاصل نہ ہوگا اور صلاۃ وسلام کے مکمل الفاظ یعنی صلی اللہ علیہ وسلم لکھنے میں جو افضلیت ہے وہ بھی ختم ہوجائے گی۔مرموز انداز میں درود لکھنے کو بسا اوقات قارئین سمجھ نہیں سکتے۔اسی لئے اہل علم نے اسے مکروہ قرار دیا اور اس سے اجتناب کی تلقین کی ہے۔
حافظ ابن الصلاح رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ''علوم الحدیث'' جو مقدمہ بن الصلاح'' کے نام سے معروف ہے ' کے نوع نمبر 25 میں جو کتابت حدیث اور کیفیت ضبط کتابت کے بارے میں ہے لکھا ہے کہ :
''رسول اللہ ﷺ کے زکر خیر کے موقعہ پر آپ کی ذات گرامی پر نہایت التزام کے ساتھ درود شریف لکھا جائے اور آپﷺ کے اسم گرامی کے بار بار آنے کی وجہ سے بار بار درود شریف لکھنے سے اکتانا نہیں چاہیے یہ ایک بہت بڑا فائدہ ہے۔جسے حدیث کے طالب علم اور لکھنے والے فورا حاصل کرلیتے ہیں۔جوشخص درود شریف لکھنے میں غفلت کرے گا وہ ایک عظیم ترین سعادت سے محروم ہوجائے گا۔کثرت سے درود شریف لکھنے والوں کے لئے ہم نے بڑے اچھے اچھے خواب دیکھے ہیں۔آدمی جب درود شریف کے الفاظ لکھتا ہے تو یہ ایک دعاء ہے جسے وہ کتاب یا رسالہ میں ثبت کررہا ہوتا ہے یہ کلام نہیں جسے وہ روایت کر رہا ہو لہذا اگر اصل کتاب میں جس سے وہ نقل کررہا ہو درود شریف کے الفاظ مکمل نہ بھی لکھے ہوں تو اسے چاہیے کہ ان پر اکتفاء نہ کرے بلکہ درود شریف کے الفاظ مکمل لکھے۔''
اسی طرح اللہ تعالیٰ ٰ کے اسم گرامی کے لئے بھی ثناء کے الفاظ ''عزوجل تبارک وتعالیٰ ٰ اور اسی طرح کے دیگر الفاظ بھی مکمل لکھے ۔۔۔ حافظ ابن الصلاح مذید فرماتے ہیں۔کہ صلواۃ وسلام کے لکھنے میں دو نقصوں سے اجتناب کرنا چاہیے ایک تو صوری نقص یعنی صلواۃ وسلام کے مکمل الفاظ نہ لکھے بلکہ دو حرفوں کے ساتھ محض اشارہ پر اکتفاء کرے اور دوسرا معنوی نقص اور وہ یہ کہ صرف صلواۃ لکھے اور سلام نہ لکھے۔حمزہ کنانی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ میں حدیث لکھتے ہوئے جہاں نبی اکرمﷺ کااسم گرامی آتا تو صرف ''صلی اللہ علیہ'' لکھتا اور ''وسلم'' نہ لکھتا تو خواب میں مجھے نبی ﷺ کی زیارت ہوئی اور آپ ﷺ نے فرمایا: کیا بات ہے تم مجھ پر پورا درود کیوں نہیں بھیجتے''فرماتے ہیں اس کے بعد پھر میں نے ایسا کبھی نہ کیا بلکہ پورا درود شریف لکھا یعنی ''صلی اللہ علیہ وسلم'' حافظ ابن الصلاح فرماتے ہیں کہ ''میرے نذدیک تو یہ مکروہ ہے کہ صرف''علیہ السلام'' پر اکتفاء کیا جائے۔''واللہ اعلم۔یہ ابن الصلاح رحمۃ اللہ علیہ کے کلام کا خلاصہ ہے۔
علامہ سخاوی نے اپنی کتاب ''فتح المغیث فی شرح الفیۃ الحدیث للعراقی'' میں فرماتے ہیں کہ ''اے کاتب اس بات سے اجتناب کرو کہ رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی پر صلواۃ وسلام کے لئے رمز و اشارہ سے کام لو اور دو حرفوں پر اکتفا کرو تو اس طرح یا تو صوری طور ر نقص ہوگا یا معنی طور پر 'جس طرح کسائی اور جاہل ابناء عجم کی اکثریت کا معمول ہے اور عام طلبہ بھی اس طرح کرتے ہیں کہ وہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بجائے (ص) یا (صم ) یا صلعم) لکھ دیتے ہیں۔تو اس طرح نقص کتابت کی وجہ سے اجر کم ملے گا اور یہ خلاف اولیٰ بھی ہے۔
علامہ سیوطیؒ نے اپنی کتاب''تدریب الراوی فی شرح تقریب النواوی'' میں لکھا ہے۔ کہ ہر وہ جگہ جہاں شریعت نے درود پڑھنے کا حکم دیا ہے وہاں صرف صلواۃ یا صرف سلام پراکتفاء کرنا مکروہ ہے جیسا کہ ''شرح مسلم وغیرہ'' میں ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ٰ نے فرمایا ہے (صلو ا علیہ وسلموا تسلیما۔۔۔)) ایک یا دد حرف کے ساتھ رمز واشارہ پر اکتفاء بھی مکروہ ہے مثلا یوں لکھا جائے ''صلعم'' بلکہ صلواۃ وسلام کو مکمل لکھنا چاہیے۔
ہر مسلمان قاری اور کاتب کو میری وصیت یہ ہے کہ وہ اس بات کو حاصل کرے جو افضل ہو۔ اس کی جستجو کرے جس میں اجر وثواب زیادہ ہو اور اس سے دور رہے جس سے اس کا عمل باطل یا ناقص ہو اللہ سبحانہ وتعالیٰ ٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اپنی رضا کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب