سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(157) عيد الام منانے کا حکم

  • 8447
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1360

سوال

(157) عيد الام منانے کا حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ہاں ہرسال 21 مارچ کو عید الام کے نام سے ایک خاص عید منائی جاتی ہے جس میں سب لوگ شریک ہوتے ہیں۔سوال یہ ہے کیا  یہ عید منانا اور اس موقعہ پرتحائف پیش کرنا حلال ہے یا حرام ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شرعی عیدوں کے سوا باقی تمام عیدیں ایجاد بندہ اور بدعت ہیں۔اور عہد سلف صالح میں یہ عیدیں معروف نہ تھیں۔بسا اوقات ان عیدوں کی ایجاد کاسہرا غیر مسلموں کے سر بھی ہوتا  ہے تو اس طرح ان میں بدعت کے ساتھ ساتھ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ٰ کے دشمنوں کے ساتھ مشابہت کا پہلو بھی ہے۔شرعی عیدیں اہل اسلام میں معروف ہیں اور وہ عید الفطر'عید الضحیٰ او ر ہفتہ وار عید۔۔۔جمعۃ المبارک۔۔۔ ہیں۔ان تین کے سوا اسلام میں اور کوئی عید نہیں ہے اور جو ایجاد کرلی گئی ہیں۔وہ مردود ہیں۔اور اللہ تعالیٰ ٰ کی شریعت کی رو سے باطل ہیں۔کیونہ نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ:

من احدث في امرنا هذا ما ليس منه فهو رد

(صحيح بخاری کتاب الصلح باب اذا اصطلحوا علی صلح جور فالصلح مردود :2697) صحیح مسلم کتاب الاقضیہ باب نقض الاحکام الباطلۃ۔۔۔ح:1718)

‘‘جس نے ہمارے اس امر(دین)میں کوئی ایسی نئی بات پیدا کی جو اس میں نہ ہو تو وہ مردود ہے’’

لہذا سائل نے جس عید کا زکر کیا اور جسے عید لام کے نام سے موسوم کیا اس میں عید کے شعائر خوشیوں او ر مسرتوں کااظہار او رتحائف کاتبادلہ وغیرہ جائز نہیں ہے۔

ہر مسلمان پر یہ فرض ہے کہ وہ اپنے دین ہی کو باعث عزت وفخر سمجھے اور اس دین قیم کےسلسلہ میں جسے اللہ تعالیٰ ٰ نے اپنے بندوں کے لئے پسند فرمایا ہے۔انہی حدود کی پابندی کرے جو اللہ تعالیٰ ٰ اور اس کے رسولﷺ نے متعین فرمادی ہیں۔یعنی دین میں اپنی طرف سے کمی بیشی نہ کرے۔اور ہر کس وناکس کے پیچھے بے سوچے سمجھے اندھا دھند چل پڑے۔مسلمان کی شخصیت اور اس کی زندگی شریعت الٰہی کے تابع ہونی چاہیے تاکہ وہ لوگوں کے پیچھے چلنے والا نہ ہو بلکہ لوگ اس کے پیچھے چلنے کے لئے مجبور ہوں۔ وہ لوگوں کو اپنے لئے نمونہ نہ سمجھے بلکہ لوگ اسے اپنا آئیڈیل قرار دیں کیونکہ بحمد اللہ ہماری شریعت ہر اعتبار سے کامل ہے۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ٰ ہے:

﴿اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى وَرَ‌ضيتُ لَكُمُ الإِسلـمَ دينًا...٣﴾... سورة المائدة

‘‘آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیا اوراپنی نعمتیں تم پر پوری کردیں اورتمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا۔’’

کیا ماں کا صرف یہی حق ہے۔کہ سال میں ایک مرتبہ اس کے نام کی عید منائی جائے اور بس! نہیں بلکہ ماں کا اس کی اولاد پر حق اس سے بہت زیادہ ہے۔ماں کا یہ حق ہے کہ اولاد اس کی خدمت ہروقت اور ہر جگہ بجالائے اور اس کی اطاعت وفرمانبرداری میں۔۔۔بشرط یہ کہ اللہ تعالیٰ ٰ کی نافرمانی لازم نہ آتی ہو۔کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج1 ص38

تبصرے