ایک سا ئل یہ سوال کر تا ہے کہ جو شخص تعلیم حا صل کر نے کے لئے بیرو ن ملک جا ئے کیا اس کے لئے یہ جا ئز ہے کہ زیا دہ بہتر اندا ز میں ز با ن سیکھنے کے لئے کسی غیر مسلم خا ندا ن کے سا تھ سکو نت اختیا ر کر لے ؟
غیر مسلم خا ندا ن کے سا تھ سکو نت اختیا ر کر نا جا ئز نہیں کیو نکہ اس طرح کفا ر کے اخلا ق اور ان کی عورتو ں کی وجہ سے طا لب علم کے فتنہ میں مبتلا ہو نے کا اندیشہ ہے لہذا یہ ضروری ہے کہ طا لب علم کی رہا ئش اسبا ب فتنہ سے دور ہو لیکن یہ سب کچھ اس قو ل کی بنیا د پر ہے کہ تعلیم حا صل کر نے کے لئے کفا ر مما لک میں سفر کر کے جا نا طلبہ کے لئے جا ئز ہو لیکن صحیح با ت یہ ہے کہ کا فر وں کے ملک میں تعلیم حا صل کر نے کے لئے جا نا بھی جا ئز نہیں الایہ کہ انتہا ئی شدید ضرورت ہو اور طا لب علم صاحب علم و بصیرت ہو اور اسبا ب فتنہ سے دور رہنے والا ہو نبی کر یم ﷺ نے فر ما یا ہے کہ :
"مسلما ن ہو نے کے بعد اللہ تعالیٰ ٰ کسی کے عمل کو قبول نہیں کر تا حتی کہ وہ مشرکو ں سے الگ ہو جا ئے ۔" اس حدیث کو امام نسا ئی بسند جید روا یت کیا ہے اور امام ابو دائود نسا ئی اور ترندی نے بسند صحیح حضرت جر یر ین عبداللہ بجلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روا یت کو ذکر کیا ہے کہ نبی کر یم ﷺ نے فر ما یا :
"میں ہر اس مسلما ن سے بری ہو ں جو مشرکو ں میں مقیم ہو ۔"اس مفہوم کی اور بھی بہت سی آیا ت واحا دیث ہیں لہذا ہر مسلما ن پر واجب ہے کہ وہ اہل شرک کے ملکوں میں سفر سے اجتناب کر ے الایہ کہ انتہا ئی شدید ضرورت ہو مسا فر صاحب علم و بصیرت ہو اور اس کا مقصود دعوت الی اللہ ہو تو پھر یہ صورت مستثنی ہے کیو نکہ اس میں خیر عظیم کا پہلو ہے کہ آدمی مشرکو ں کو اللہ تعا لی کی تو حید کی دعو ت دے انہیں اللہ تعالیٰ ٰ کی شر یعت کی تعلیم دے ایسا شخص محسن ہو گا اور علم و بصیرت کے با عث خطرا ت سے دور بھی رہے گا
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب