ان دنو ں جب ہم مشرق و مغرب کے مختلف مما لک میں جا تے ہیں جن کے با شندوں کی غا لب اکثریت مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے غیر مسلموں کی ہے وہ ہمیں جہا ں بھی ملتے ہیں تو سلا م کہتے ہیں تو ان سلسلہ میں ہم پر کیا وا جب ہے ؟
رسول اللہ ﷺ سے یہ ثا بت ہے کہ آپ نے فر ما یا :
"یہود نصا ری کو پہلے سلا م نہ کر و اور جب را ستہ میں انہیں ملو تو تنگ راستہ کی طرف انہیں مجبور کر دو ۔" اسی طرح آپ ﷺ نے یہ بھی فرما یا کہ:
" جب اہل کتا ب تمہیں سلا م کہیں تو انہیں جو اب میں صرف یہ کہو "وعلیکم "اہل کتا ب سے مرا د اگر چہ یہو د و نصا ری ہیں لیکن بقیہ کفا ر کا حکم کا حکم بھی اس مسئلہ میں بھی یہی ہے کیو نکہ ان میں اور دیگر کا فر وں میں فرق کی کو ئی دلیل نہیں ہے کا فر کو مطلقاً پہلے سلا م نہ کہا جا ئے اور اگر وہ سلا م کہے تو وا جب ہے کہ جوا ب میں صر ف "وعلیکم " کہا جا ئے جیسا کہ نبی ﷺ نے فر ما یا ہے اور اس کے بعد یہ کہنے میں کو ئی حرج نہیں کہ تمہا را کیا حا ل ہے؟ بچوں کا کیا حا ل ہے ؟ جیسا کہ بعض اہل علم مثلا شیخ الا سلا م ابن ت تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی اجا زت دی ہے خصوصا جب کہ اسلا می مصلحت کا یہ تقا ضا بھی ہو مثلا اسے اسلا م کی رغبت دینا اسلام سے اسے ما نو س کر نا تا کہ وہ دعوت اسلا م قبول کر لے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ٰ ہے :
"(اے پیغمبر ؛)لو گو ں کو دا نش اور نیک نصیحت سے اپنے پر وردگا ر کے راستے کی طرف بلا ئو اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے منا ظرہ کر و نیز فر ما یا :
اور اہل کتا ب سے جھگڑا (بحث مبا حثہ ) نہ کر و مگر ایسے طریق سے کہ نہایت اچھا ہو ہاں جو ان میں سے بے انصا فی کر یں -"
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب