کیاقربانی کے گوشت میں کافر پڑوسی کا بھی حصہ ہے یانہیں؟
مسلمان کے لئے جائز ہے۔ کہ وہ اپنے کافر پڑوسی کی دلیجوئی اور اس کی تالیف قلب کے لئے اسے قربانی کے گوشت کا تحفہ دے حق پڑوسی کا بھی یہ تقاضا ہے۔اور شرعاً اس کی ممانعت کی کوئی دلیل بھی نہیں اس ارشاد باری تعالیٰ ٰ کے عموم کےمطابق بھی یہ جائز قرار پاتا ہے کہ:
''جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تمھیں تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی اور انصاف کاسلوک کرنے سے اللہ تم کو منع نہیں کرتا 'اللہ تو انصاف کرن والوں کو دوست رکھتا ہے۔''
فتویٰ کمیٹی کی طرف سے اس مسئلہ میں پہلے بھی حسب زیل فتویٰ جاری ہوچکا ہے کہ:
''ہمارے لئے یہ جائز ہے کہ ہم کسی کافر زمی اور قیدی کو قربانی کا گوشت کھلایئں فقر قرابت پڑوس یاتالیف قلب کے لئے کسی بھی کافر کوقربانی کاگوشت دینا جائز ہے۔کیونکہ قربانی کے جانور کو ذبح یانحر کرنا تو اللہ تعالیٰ ٰ کی عبادت اور اس کے تقرب کے حصول کے لئے ہے ۔اور اس کے گوشت کے بارے میں افضل یہ ہے کہ ایک ثلث خود کھائے ایک ثلث رشتہ داروں پڑوسیوں اوردوستوں کو تحفہ دے اور ایک ثلث فقیروں میں صدقہ کردے۔اس میں آکر کمی بیشی ہوجائے یا کسی ایک قسم میں ہی ساراگوشت صرف کردے تو پھر بھی کوئی حرج نہیں اس میں کافی گنجائش ہے۔البتہ کسی حربی کافر کو قربانی کا گوشت نہیں دیناچاہیے۔کیونکہ اس کی دلجوئی اور حوصلہ افزائی کی بجائے اس کی کمزوری اور ذلت اوررسوائی مقصود ہے۔''
حسب زیل ارشاد باری تعالیٰ ٰ کے عموم کے پیش نظر دیگر نفل صدقات کےلئے بھی یہی حکم ہے:
''جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی او رنہ تمھیں تمھارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے اللہ تم کو منع نہیں کرتا اللہ تو انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔اللہ انہی لوگوں کے ساتھ تم کودوستی رکھنے سےمنع کرتا ہے۔جنھوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی کی اور تمھیں تمہارے گھروں سے نکالا اورتمہارے نکالنے میں اوروں کی مدد کی تو جولوگ ان (لوگوں) سے دوستی کریں گے وہی ظالم ہیں۔''
نبی اکرمﷺ نے اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ اپنی مشرک ماں کےساتھ مالی طور پرصلہ رحمی کرسکتی ہیں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب