سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(144) صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو گالی دینے والے کے ساتھ معاملہ

  • 8434
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 1971

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جو آدمی اصحاب ثلاثہ (ابو بکر صدیق عمر فاروق اور عثمان ذوالنورین رضوان اللہ عنھم اجمعین  ) کو گالی دے اس کے ساتھ معاملہ کس طرح ہونا چاہیے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین  اس امت کے سب سے بہترین افراد  تھے۔اللہ تعالیٰ ٰ نے اپنی کتاب مقدس میں ان کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا ہے:

﴿وَالسّـبِقونَ الأَوَّلونَ مِنَ المُهـجِر‌ينَ وَالأَنصارِ‌ وَالَّذينَ اتَّبَعوهُم بِإِحسـنٍ رَ‌ضِىَ اللَّهُ عَنهُم وَرَ‌ضوا عَنهُ وَأَعَدَّ لَهُم جَنّـتٍ تَجر‌ى تَحتَهَا الأَنهـرُ‌ خـلِدينَ فيها أَبَدًا ذلِكَ الفَوزُ العَظيمُ ﴿١٠٠﴾... سورة التوبة

''جن لوگوں نے سبقت کی (یعنی سب سے) پہلے (ایمان لائے) مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی اور جنھوں نے نیکو کاروں کے ساتھ ان کی پیروی کی اللہ ان سے خوش ہے۔اور وہ اللہ سے خوش ہیں۔اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کیے ہیں۔جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔(اور) ہمیشہ ان میں رہیں گے'یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔''

نیز فرمایا:

﴿ لَقَد رَ‌ضِىَ اللَّهُ عَنِ المُؤمِنينَ إِذ يُبايِعونَكَ تَحتَ الشَّجَرَ‌ةِ فَعَلِمَ ما فى قُلوبِهِم فَأَنزَلَ السَّكينَةَ عَلَيهِم وَأَثـبَهُم فَتحًا قَر‌يبًا ﴿١٨﴾... سورة الفتح

''(اے پیغمبر!) جب مومن درخت کے نیچے آپ کی بعیت کر رہے تھے تو یقینی طور پر  اللہ ان سے خوش ہوا اور جو (صدق وخلوص) ان کے دلوں میں تھا وہ اس نے معلوم کرلیا تو ان پر تسکین (تسلی) نازل فرمائی اور (جراءت ایمانی کے بدلے) انہیں جلد فتح عنایت کی۔''

اس طرح کی اور بہت سی آیات ہیں۔جن میں اللہ تعالیٰ ٰ نے حضرات صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین  کی تعریف کی اور ان سے جنت کاوعدہ فرمایا ہے۔حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ  حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ان سابقین میں سر فہرست ہیں۔اور ان میں شامل ہیں۔جنھوں نے رسول اللہ ﷺ کے دست مبارک پر بیعت کی تھی۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی طرف سے نبی کریمﷺنے غائبانہ بیعت لی  یہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے آپ کے حق میں شہادت اور آپ پراعتماد کا اظہار تھا۔اس طرح آپ ﷺ کی بیعت دوسروں کی نسبت زیادہ قوی تھی۔ دیگر بہت سی احادیث میں بھی اجمال اور تفصیل کے ساتھ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  حضرت عثمانرضی اللہ تعالیٰ عنہ  حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ک فضائل مناقب موجود ہیں۔اور ان کے ساتھ دیگرتمام صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین  کو بھی جنت کی بشارت دی گئی۔اور انھیں گالی دینے سے منع کیا گیا چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

ولا تسبوااصحابي فان احدكم لو انفق مثل احد ذهبا ماادرك مد احدهم ولا نصيفه(صحيح مسلم ح:٢٥٤-)

''میرے صحابہ (کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین ) کو گالی نہ دینا۔تم سے کوئی شخص اگر احد پہاڑ کے برابر سونا بھی خرچ کرے تو ان کے ایک مد یا نصف مد 1( کے ثواب کو بھی ) نہیں پاسکتا۔''

 (۱)مد ایک پیمانہ ہے جس کی مقدار اہل عراق کے نزدیک دو رطل اور اہل حجاز کے نزدیک ایک اور تہائی رطل ہے جب کہ ایک رطل بارہ اوقیہ یاچالیس تولے کے برابر ہوتا ہے۔

جو شخص  رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین  خصوصا اصحاب ثلاثہ حضرات ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  وعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  وعثمانرضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو سب وشتم کرے تو اس سے اس کے بارے میں یقیناً باز پرس ہوگی۔ کیونکہ اس نے کتاب سنت کی مخالفت کی ہے اور وہ اس مغفرت سے یقیناً محروم ہوگا۔جس کااللہ تعالیٰ ٰ نے ان لوگوں سے وعدہ فرمایاہے۔جو ان کی اتباع کریں گے ان کے لئے مغفرت کی دعاء کریں گے اور یہ دعا کریں گے کہ اللہ تعالیٰ ٰ ان کے دل میں کسی بھی مومن کے لئے کینہ وحسد پیدا نہ کرے اصحاب ثلاثہ اوردیگر صحاب کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین  کی  شان میں گستاخی کرنے والے کو سمجھایا جائے۔حضرات صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین  کے فضائل ومناقب سے آگاہ کیاجائے۔ ان کے درجات سے اسے مطلع کیاجائے۔ اور بتایا جائے کہ اسلام میں انھیں کس قدرعظمت واستقامت حاصل ہے۔ اگر ا س کے بعد وہ شخص توبہ کرلے تو ہمارا دینی بھائی ہے اگر وہ اس طرح صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین  کی شان میں گستاخی کرے تو بقدر  امکان سیاست شرعیہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے اسے گستاخی سے باز رکھنا ضروری ہے جوشخص ہاتھ یازبان سے اسے باز نہ رکھ سکے تو وہ دل ہی میں اسے برا سمجھے۔اور جیسا کہ حدیث صحیح سے ثابت ہے یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج1 ص38

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ