میلاد کی عیدوں کا منانے کا کیا حکم ہے؟
میلاد کی عیدوں کے منانے کی شریعت مطہرہ میں کوئی اصل نہیں ہے بلکہ یہ نبی ﷺ کے اس ارشاد کی روشنی میں بدعت ہے کہ:
(صحيح بخاری کتاب الصلح باب اذا اصطلحوا علی صلح جور فالصلح مردود :2697) صحیح مسلم کتاب الاقضیہ باب نقض الاحکام الباطلۃ۔۔۔ح:1718)
‘‘جس نے ہمارے اس امر(دین)میں کوئی ایسی نئی بات پیدا کی جو اس میں نہ ہو تو وہ مردود ہے’’
اس کی صحت متفق علیہ ہے اور مسلم کی ایک روایت میں ہے جسے امام بخاری نے صحیح میں تعلیقا مگر صیغۂ جزم کے ساتھ روایت کیا ہے کہ
(صحیح مسلم کتاب الاقضیۃ باب نقض الاحکام الباطلۃ ۔۔۔ح :1718۔وصحیح بخاری کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ باب رقم :20)
‘‘جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہماراامر نہیں ہے تو وہ مردود ہے’’
اوریہ سب جانتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں کبھی بھی اپنا یوم میلاد نہیں منایا نہ کبھی اس کا حکم دیا اور نہ صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین اورخلفاء راشدین کو یہ سکھایا۔حضرات صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین میں سے کسی نے کبھی بھی نبی ﷺ کا یوم میلاد نہیں منایا حالانکہ انہیں آپﷺ کی سنت سب سے زیادہ علم بھی تھا اور انہیں آپﷺ کے ساتھ سب لوگوں سے زیادہ محبت بھی تھی۔وہ آپ کی اتباع اور پیروی کے بھی شدید حریص تھے لہذا اگر عید میلاد النبی ﷺ منانے کاشریعت میں کوئی حکم ہوتا تو وہ یقیناً اسے بڑھ چڑھ کر مناتے اسی طرح ابتدائی فضیلت والی صدیوں میں علماء کرام میں سے کسی نے بھی اسے منایا نہ منانے کا حکم دیا۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ عید میلاد النبی ﷺ کا اس شریعت سے قطعا کوئی تعلق نہیں تھا۔جسے حضرت محمد ﷺ لے کر دنیا میں تشریف لائے تھے۔ہم اللہ تعالیٰ ٰ او رتمام مسلمانوں کو گواہ بنا کر کہتے ہیں۔ کہ اگر نبی اکرمﷺ نے اسے منایا ہوتا تو ہم بھی ضرور ضرورمناتے اور لوگوں کو اس کے منانے کی دعوت بھی دیتے۔کیونکہ بحمدللہ!ہم آپ کی سنت کے اتباع اور آپ کے امر ونہی کی تعظیم کے شدید حریص ہیں۔ہم اللہ تعالیٰ ٰ سے اپنے لئے اورتمام مسلمان بھایئوں کے لئے دعاء کرتے ہیں کہ وہ ہمیں حق پرثابت قدم رکھے۔اور ہر اس کام سے محفوظ رکھے جو شریعت مطہرہ کے خلاف ہو۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب