ایک شخص یہ کہتا ہے کہ بعض احکام شریعت نظر ثانی کے محتاج ہیں۔ اور ضرورت ہے کہ ان میں مناسب تبدیلی کردی جائے کیونکہ وہ عصرحاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔مثال کے طور پر وہ میراث کا ایک اُصول بیان کرتاہے۔جس میں یہ حکم ہے کہ آدمی کودو عورتوں کے برابر حصہ دیا جائے۔ اس طرح کے شخص کے بارے میں حکم شریعت کیا ہے؟
وہ احکام شریعت نہیں جنھیں اللہ تعالیٰ ٰ نے اپنے بندوں کے لئے اپنی کتاب کریم یا اپنے رسول امین کی زبانی بیان فرمایا مثلا احکام میراث نماز پنجگانہ زکواۃ اور روزہ وغیرہ جنھیں اللہ تعالیٰ ٰ نے اپنے بندوں کے لئے واضح فرمادیا ہے اس پر ساری امت کا اجماع ہے۔کہ کسی کو ان پر اعتراض کرنے اور ان کو بدلنے کا حق حاصل نہیں ہے۔کیونکہ شریعت کے یہ محکم احکام جس طرح نبی کریمﷺ کے زمانے میں تھے۔ آپ کے بعد قیامت تک یہ اسی طرح رہیں گے۔ انہی محکم احکام میں سے ایک حکم یہ ہے کہ مرد کو عورت پرفضیلت دی گئی ہے۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ ٰ نے اپنی کتاب کریم میں اسے واضح طور پر بیان فرمایا اور تمام علماء اسلام کااس بات پر اجماع ہے۔لہذااعتقاد ایمان کے ساتھ اس پر عمل کرنا واجب ہے اور جوشخص یہ گمان کرے کہ اس حکم الٰہی کی بجائے کوئی اور حکم زیادہ موزوں ہے تو وہ کافر ہے۔اور جو شخص حکم الٰہی کی مخالفت کوجائز قرار دے۔وہ بھی کافر ہے۔کیونکہ وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ٰ رسول اللہ ﷺ اور اجماع امت پرمعترض ہے۔اگر یہ معترض مسلمان ہے تو حاکم وقت پرفرض ہے۔ کہ اس سے توبہ کروائے اگر وہ شخص توبہ کرلے تو بہتروگر نہ کافر ہونے او راسلام سے مرتد ہونے کی وجہ سے اسے قتل کرنا واجب ہوجائےگا۔کیونکہ نبی کریمﷺ کاارشاد گرامی ہے:
''جو شخص اپنے دین کو بدل لے تو اسے قتل کردو۔''
ہم اپنے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے دعاء کرتے ہیں کہ وہ سب کوگمراہ کن فتنوں او رشریعت مطہرہ کی مخالفت سے محفوظ رکھے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب