اس شخص کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے کہ جو کہتا ہے کہ داڑھی منڈانا یاتنگ لباس پہننا معمولی باتیں ہیں۔ان کا دین کے اصول سے کوئی تعلق نہیں ہے یا ایسی باتیں کرنے والوں سے وہ ہنسی مذاق کرتا ہے؟
یہ کلام خطرناک اور منکر عظیم ہے۔دین میں کوئی سطحیت نہیں ہے۔بلکہ دین تو عقل صلاح اور اصلاح پر مبنی ہے دین کے مسائل اصول وفروع میں تقسیم ہیں۔داڑھی اور کپڑوں کا مسئلہ دین کے فروعی مسائل میں سے ہے۔اصول میں سے نہیں ہے۔ لیکن دین کی کسی بھی بات کو سطحیت سے تعبیر نہیں کرنا چاہیے کیونکہ خدشہ ہے کہ جو شخص ازراہ نقص واستہزاء ایسی بات کہتا ہے وہ کہیں مرتد ہی نہ ہوجائے کہ ارشاد باری تعالیٰ ٰ ہے:
''اے پیغمبر ! کہہ دیجئے کیا تم اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنسی کرتے تھے۔بہانے مت بناؤ تم ایمان لانے کے بعد کافر ہوچکے ہو۔''
رسول اللہ ﷺ نے چونکہ یہ حکم دیا ہے۔ کہ داڑھی کو بڑھایا جائے۔اور مونچھوں کو کٹوایا جائے۔ اور تمام امور میں آپ کی اطاعت اور آپ کے امرونہی کا تعظیم واجب ہے۔امام ابو محمد بن حزم نے زکر فرمایا ہے کہ اس بات پر علماء کا اجماع ہے۔کہ داڑھی کو بڑھانا اور مونچھوں کوکٹوانا فرض ہے۔اور بلاشک وشبہ سعادت نجات عزت کرامت اور اچھی عاقبت اللہ اور اس کے رسولﷺکی اطاعت ہی میں ہے۔اور ہلاکت اوربُرا انجام اس بات میں ہے کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی نافرمانی کی جائے ۔کپڑے کو ٹخنوں سےاونچا رکھنا فرض ہے۔کیونکہ رسول اللہ ﷺ کاارشاد ہے:
''تہبند کا جو حصہ ٹخنوں سے نیچے ہوگا وہ(تہبند سے ڈھانپا ہوا حصہ) جہنم میں ہوگا۔''
اس طرح رسول اللہ ﷺ کاارشاد ہے:
''قیامت کےد ن تین آدمیوں سے اللہ تعالیٰ ٰ کلام فرمائے گا نہ ان کی طرف (نظر رحمت سے) دیکھے گا۔نہ انہیں پاک کرے گا۔اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہوگا۔1۔اپنے تہبند کو نیچے لٹکانے والا 2۔دے کراحسان جتانے والا اور 3۔جھوٹی قسم کھا کراپنا سودا بیچنے والا۔''
رسول اللہ ﷺ کایہ ارشاد گرامی بھی ہے:
''اللہ تعالیٰ ٰ اس شخص کی طرف دیکھے گا نہیں جو تکبر وفخر کیوجہ سے اپنا کپڑا (ٹخنے سے نیچے ) لٹکائے۔''
اس لئے ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اپنے کپڑوں کو ٹخنوں سے اونچا رکھے۔ خواہ وہ قمیص ہو یا تہبند شلوار ہو یا پاجامہ اور ٹخنوں سے نیچا نہ لٹکائے۔افضل یہ ہے کہ کپڑا نصف پنڈلی اور ٹخنے کے درمیان ہو۔ اگر کپڑے کو ازراہ فخر وتکبر لٹکایا توگناہ بہت زیادہ ہوگا۔ اوراگر کپڑا محض غفلت اور سسکتی کی وجہ سے لٹک گیا تو یہ امر بھی منکر ہے۔اس سے بھی آدمی گناہ گارہوگا۔ لیکن متکبر کی نسبت اسے گناہ کم ہوگا۔ لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کپڑے کو(ٹخنے سے) نیچے لٹکانا وسیلہ تکبر ضرور ہے اگرچہ آدمی گمان یہی کرے کہ وہ تکبر کی وجہ سے ایسا نہیں کررہا۔ اور پھر حدیث میں وعید عام ہے۔لہذا اس مسئلے میں تساہل سے ہرگز کام نہیں لینا چاہیے۔
حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خود نبی کریمﷺ کی خدمت میں یہ عرض کیا:
''کوشش کے باوجود میرا تہبند (ٹخنے سے) نیچے لٹک جاتا ہے۔''اور نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ ''آپ ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جو ازراہ تکبر ایسا کرتے ہیں۔''
تو یہ اس شخص کے حق میں ہے جس کا حال صدیق اکبر جیسا یعنی جس کاکپڑا بغیر تکبر کے لٹک گیا ہو اور اسکے باوجود وہ کوشش کرتا ہو کہ وہ اپنے کپڑے کواونچارکھے۔اور جوشخص قصد وارادہ سے اپنے کپڑے کو ٹخنوں سےنیچا رکھے تو وہ صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح نہیں ہے۔کپڑوں(شلوار۔پینٹ ۔پاجامہ اور تہبند وغیرہ کو ٹخنوں) سے نیچے لٹکانے میں مذکورہ بالاوعید کے ساتھ ساتھ اسراف بھی ہے۔اور کپڑوں کے نجاست سے آلودہ ہونے کا اندیشہ بھی نیز عورتوں کے ساتھ مشابہت بھی ہے۔ لہذا مسلمان پر فرض ہے۔کہ وہ اپنے آپ کو بچائے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب