السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جو اللہ کے نازل فرمائے ہوئے احکام کے بغیر فیصلے کرے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
میں اللہ تعالیٰ کی توفیق کے ساتھ اور اس سے ہدایت ودرستی کا سوال کرتے ہوئے عرض کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ توحید ربوبیت کے مطابق حکم دینا، اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تنفیذ ہے جو اس کی ربوبیت، کمال ملکیت اور تصرف کا تقاضا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو، جن کا اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کے بغیر اتباع کیا گیا، اتباع کرنے والوں کے ارباب (معبود) کے نام سے موسوم قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿اتَّخَذوا أَحبارَهُم وَرُهبـنَهُم أَربابًا مِن دونِ اللَّهِ وَالمَسيحَ ابنَ مَريَمَ وَما أُمِروا إِلّا لِيَعبُدوا إِلـهًا وحِدًا لا إِلـهَ إِلّا هُوَ سُبحـنَهُ عَمّا يُشرِكونَ ﴿٣١﴾... سورة التوبة
’’انہوں نے اپنے علماء مشائخ اور مسیح ابن مریم کو اللہ کے سوا معبود بنا لیا، حالانکہ ان کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ صرف اللہ واحد کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں، اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ ان لوگوں کے شریک ٹھہرانے سے پاک ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے ان متبوعین کو ارباب کے نام سے موسوم کیا کیونکہ انہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ شارع بنا لیا گیا تھا اور ان کی اتباع کرنے والوں کو ان کا پجاری قرار دے دیا گیا، کیونکہ وہ ان کے سامنے جھکتے تھے محض اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حکم کی مخالفت میں انہوں نے ان کی اطاعت اختیار کر لی تھی۔
حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ عرض کیا کہ وہ ان کی عبادت تو نہیں کرتے تھے، تو آپ نے فرمایا:
«بل انهم حرموا عليهم الحلال ،وأحلوا لهم الحرام فأتبعوهم فذلک عبادتهم اياهم »(جامع الترمذي، تفسیر القرآن، باب من سورۃ التوبة، ح:۳۰۹۵ وحسنه شیخ الاسلام ابن تیمیة فی کتاب الایمان، ص:۶۷)
’’جب وہ ان کے لیے کسی چیز کو حلال قرار دے دیتے تو وہ اسے حلال سمجھتے اور جب ان کےلیے کسی چیز کو حرام قرار دے دیتے تو وہ اسے حرام سمجھتے تھے یہی ان کی ان کے حق میں عبادت ہے۔‘‘
جب آپ نے اس بات کو سمجھ لیا تو خوب جان لیجئے کہ جو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ کرے یہی نہیں بلکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے سوا کسی اور کو حاکم قرار دینے کا ارادہ کرے، تو اس کے ایمان کی نفی کے بارے میں بھی بہت سی آیات وارد ہوئی ہیں اسی کے ساتھ ایسی آیات بھی وارد ہوئی ہیں جو اس کے کفر، ظلم اور فسق پر دلالت کرتی ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿أَلَم تَرَ إِلَى الَّذينَ يَزعُمونَ أَنَّهُم ءامَنوا بِما أُنزِلَ إِلَيكَ وَما أُنزِلَ مِن قَبلِكَ يُريدونَ أَن يَتَحاكَموا إِلَى الطّـغوتِ وَقَد أُمِروا أَن يَكفُروا بِهِ وَيُريدُ الشَّيطـنُ أَن يُضِلَّهُم ضَلـلًا بَعيدًا ﴿٦٠﴾ وَإِذا قيلَ لَهُم تَعالَوا إِلى ما أَنزَلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّسولِ رَأَيتَ المُنـفِقينَ يَصُدّونَ عَنكَ صُدودًا ﴿٦١﴾ فَكَيفَ إِذا أَصـبَتهُم مُصيبَةٌ بِما قَدَّمَت أَيديهِم ثُمَّ جاءوكَ يَحلِفونَ بِاللَّهِ إِن أَرَدنا إِلّا إِحسـنًا وَتَوفيقًا ﴿٦٢﴾ أُولـئِكَ الَّذينَ يَعلَمُ اللَّهُ ما فى قُلوبِهِم فَأَعرِض عَنهُم وَعِظهُم وَقُل لَهُم فى أَنفُسِهِم قَولًا بَليغًا ﴿٦٣﴾ وَما أَرسَلنا مِن رَسولٍ إِلّا لِيُطاعَ بِإِذنِ اللَّهِ وَلَو أَنَّهُم إِذ ظَلَموا أَنفُسَهُم جاءوكَ فَاستَغفَرُوا اللَّهَ وَاستَغفَرَ لَهُمُ الرَّسولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوّابًا رَحيمًا ﴿٦٤﴾ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤمِنونَ حَتّى يُحَكِّموكَ فيما شَجَرَ بَينَهُم ثُمَّ لا يَجِدوا فى أَنفُسِهِم حَرَجًا مِمّا قَضَيتَ وَيُسَلِّموا تَسليمًا ﴿٦٥﴾... سورة النساء
’’(اے نبی!) کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ جو (کتاب) تم پر نازل ہوئی اور جو (کتابیں) تم سے پہلے نازل ہوئیں وہ ان سب پر ایمان رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اپنا مقدمہ سرکش (شیطانوں) کے پاس لے جا کر فیصلہ کرائیں، حالانکہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ ان (شیطانوں) سے کفر کریں اور شیطان (تو یہ) چاہتا ہے کہ ان کو بہکا کر راستے سے دور ڈال دے اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو حکم اللہ نے نازل فرمایا ہے اس کی طرف (رجوع کرو) اور پیغمبر کی طرف آؤ تو تم منافقوں کو دیکھتے ہو کہ وہ تم سے اعراض کرتے اور رک جاتے ہیں، پھر ان کا کیا حال ہوتا ہے جب ان کے اعمال (کی شامت) سے ان پر کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے تو وہ تمہارے پاس بھاگے آتے ہیں اور قسمیں کھاتے ہیں کہ واللہ! ہمارا مقصود بھلائی اور موافقت تھا۔ ان لوگوں کے دلوں میں جو کچھ ہے اللہ اس کو (خوب) جانتا ہے، لہٰذا تم ان (کی باتوں) کا کچھ خیال نہ کرو اور انہیں نصیحت کرو اور ان سے ایسی باتیں کہو جو ان کے دلوں میں اثر کر جائیں۔ اور ہم نے جو پیغمبر بھیجا ہے وہ اس لیے بھیجا ہے کہ اللہ کے فرمان کے مطابق اس کا حکم مانا جائے۔ اور یہ لوگ جب اپنے حق میں ظلم کر بیٹھے تھے، اگر تمہارے پاس آتے اور اللہ سے بخشش مانگتے اور رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم) بھی ان کے لیے بخشش طلب کرتے تو یقینا اللہ کو معاف کرنے والا (اور) مہربان پاتے۔ تمہارے پروردگار کی قسم! یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کر دو اس سے اپنے دل میں تنگ دلی محسوس نہ کریں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں، تب تک مومن نہیں ہوں گے۔‘‘
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے دعوائے ایمان کرنے والے منافقین کی حسب ذیل نشانیاں بیان کی ہیں:
۱۔ وہ طاغوت کو اپنا حاکم بنانا چاہتے ہیں اور طاغوت سے مراد ہر وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت، اس ذات سے سرکشی وبغاوت ہے جسے حکم کا اختیار حاصل ہے اور تمام امور جس کی طرف لوٹنے والے ہیں بلاشبہ وہ اللہ تعالیٰ ہی کی ذات پاک ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿أَلا لَهُ الخَلقُ وَالأَمرُ تَبارَكَ اللَّهُ رَبُّ العـلَمينَ ﴿٥٤﴾... سورة الأعراف
’’دیکھو! سب مخلوق بھی اسی کی ہے اور حکم بھی اسی کا ہے، اللہ رب العالمین بڑی برکت والا ہے۔‘‘
۲۔ ان کو جب اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بلایا جاتا ہے تو وہ اس سے روکتے اور اعراض کرتے ہیں۔
۳۔ جب انہیں اپنی ہی بداعمالیوں کی پاداش میں کوئی مصیبت پہنچتی ہے اور اس کی ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ان کے کرتوتوں کا راز فاش ہو جاتاہے تو وہ قسمیں کھاتے ہوئے آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا مقصود بھلائی اور موافقت تھا جیسا کہ ان لوگوں کا حال ہے جو آج بھی اسلامی احکام کو ترک کر کے ان کے مخالف قوانین اختیار کر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہی قوانین عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہیں اور موڈرآئیزیشن کا یہی تقاضہ ہے۔
پھر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مذکورہ بالا نشانیوں والے ان مدعیان ایمان کو ڈرایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو جانتا ہے جو ان کے دلوں میں ہے اس میں کوئی شک وشبہ کی گنجائش نہیں کہ ان کے دلوں میں جو کچھ مخفی ہے وہ ان (کے منہ) کی باتوں کے خلاف ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ وہ انہیں نصیحت کریں اور ان سے ایسی باتیں کہیں جو ان کے دلوں پر اثر کریں۔ پھر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ رسول کے بھیجنے میں حکمت یہ ہے کہ صرف اس کی اطاعت واتباع کی جائے اور دیگر لوگوں کی اتباع نہ کی جائے، خواہ ان کے افکار کتنے ہی قوی اور ان کے علاقے کیسے ہی وسیع کیوں نہ ہوں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے ربِّ رسول ہونے کی قسم کھائی ہے بلاشبہ یہ اس کی ربوبیت کی سب سے خاص قسم ہے، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحت رسالت کی طرف بھی اشارہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بہت تاکیدی قسم کھا کر فرمایا ہے کہ تین امور کے بغیر ایمان درست ہو ہی نہیں سکتا۔
۱۔ تمام تنازعات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کو منصف مان لیا جائے۔
۲۔ آپ کے حکم کوکسی کجی اور ٹیڑھ پن کے شرح صدر کے ساتھ قبول کر لیا جائے۔
۳۔ آپ جو فیصلہ فرمائیں، اس کے سامنے مکمل طور پر سر تسلیم خم کر دیا جائے اور کسی سستی اور انحراف کے بغیر آپ کے فیصلے کو نافذ کر دیا جائے۔
اورشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَمَن لَم يَحكُم بِما أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولـئِكَ هُمُ الكـفِرونَ ﴿٤٤﴾ ... سورة المائدة
’’اور جو اللہ کے نازل فرمائے ہوئے احکام کے مطابق فیصلہ نہ کرے تو ایسے ہی لوگ کافر ہیں۔‘‘
اور فرمایا:
﴿وَمَن لَم يَحكُم بِما أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولـئِكَ هُمُ الظّـلِمونَ ﴿٤٥﴾... سورة المائدة
’’اور جو اللہ کے نازل فرمائے ہوئے احکام کے مطابق فیصلہ نہ کرے تو ایسے ہی لوگ بے انصاف ہیں۔‘‘
اور فرمایا:
﴿وَمَن لَم يَحكُم بِما أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولـئِكَ هُمُ الفـسِقونَ ﴿٤٧﴾ ... سورة المائدة
’’اور جو اللہ کے نازل فرمائے ہوئے احکام کے مطابق فیصلہ نہ کرے تو ایسے ہی لوگ نافرمان ہیں۔‘‘
کیا یہ تینوں صفتیں ایک ہی موصوف کی ہیں، یعنی جو اللہ کے نازل فرمائے ہوئے احکام کے مطابق حکم نہ دے تو وہ کافر، ظالم اور فاسق ہے کیونکہ مذکورہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے کافر کو ظالم اور فاسق بھی قرار دیا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿وَالكـفِرونَ هُمُ الظّـلِمونَ ﴿٢٥٤﴾... سورة البقرة
’’اور کفر کرنے والے لوگ ہی ظالم ہیں۔‘‘
اور فرمایا:
﴿إِنَّهُم كَفَروا بِاللَّهِ وَرَسولِهِ وَماتوا وَهُم فـسِقونَ ﴿٨٤﴾... سورة التوبة
’’یہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کرتے رہے اور مرے بھی تو نافرمان ہی (مرے)۔‘‘
یعنی ہر کافر ظالم اور فاسق بھی ہے یا یہ اوصاف مختلف موصوفین کے ہیں اور وہ ان کے مختلف حالات کی وجہ سے ہیں جن میں انہوں نے اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ صادر نہ کیا ہو؟ میرے نزدیک یہ دوسری بات ہی زیادہ صحیح ہے۔ واللّٰہ اعلم
ہم عرض کریں گے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کو حقیر سمجھتے ہوئے ان کے مطابق حکم نہ دے یا وہ یہ اعتقاد رکھے کہ ان احکام کے علاوہ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین لوگوں کے لیے ان سے زیادہ موزوں اور مفید ہیں تو وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ ان میں سے بعض افراد لوگوں کے سامنے انسانوں کے بنائے ہوئے ایسے قوانین پیش کرتے ہیں جو انسانی قوانین کے مخالف ہیں تاکہ لوگ ان قوانین کے مطابق زندگی بسر کریں اور انہوں نے مخالف اسلام قوانین اسی لیے وضع کیے ہیں کہ یہ لوگ ان قوانین وضعیہ کو لوگوں کے لیے زیادہ بہتر اور مفید سمجھتے ہیں، اس لیے کہ عقلی وفطری طور پر یہ بات معلوم ہے کہ انسان ایک طریقے کو چھوڑ کر دوسرے طریقے کو صرف اس لیے اختیار کرتا ہے کہ وہ پہلے طریقے کو ناقص اور دوسرے کو اس سے بہتر سمجھتا ہے۔
جو شخص اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کے مطابق حکم نہ دے اور انہیں حقیر بھی نہ جانے اور یہ عقیدہ بھی نہ رکھے کہ وضعی قوانین لوگوں کے لیے زیادہ بہتر اور مفید ہیں، مگر وہ محکوم علیہ پر تسلط کے طور پر یا اس سے انتقام وغیرہ کی خاطر کسی وضعی حکم کے مطابق حکم دیتا ہے تو ایسا شخص ظالم ہے، کافر نہیں۔ وسائل حکم اور اس کے فیصلے (محکوم بہ) کے اعتبار سے ظلم کے مختلف مراتب و درجات ہیں۔
جو شخص اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کے مطابق حکم نہ دے لیکن وہ احکام الٰہی کو حقیر بھی نہ سمجھے، دیگر وضعی قوانین کے بہتر اور مفید ہونے کا عقیدہ بھی نہ رکھے لیکن حکم الٰہی کو وہ محکوم لہٗ سے محبت کی خاطر یا اس سے رشوت لے کر یا کسی اور دنیوی غرض کی وجہ سے نافذ نہیں کرتا تو وہ فاسق ہے، کافر نہیں ہے اور محکوم بہ اور وسائل حکم کے مطابق اس کے فسق کے درجے بھی مختلف ہوں گے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ان لوگوں کے بارے میں لکھا ہے، جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر اپنے علماء ومشائخ کو معبود بنا لیا تھا، وہ دو طرح لوگ ہو سکتے ہیں:
۱۔ ان کی ایک قسم تو وہ ہے جو جانتے ہوں کہ ان کے علماء مشائخ نے اللہ تعالیٰ کے دین کو بدل دیا ہے اور تبدیلی کے بارے میں اس علم کے باوجود انہوں نے ان کا اتباع کیا ہو اور ایسی چیز کو حلال وحرام سمجھا ہو جس کو اللہ تعالیٰ کی مرضی ومشیت کے خلاف ان علماء ومشائخ نے حلال وحرام قرار دیا ہو اور ان لوگوں کو معلوم ہو کہ وہ پیغمبروں کے دین کی مخالفت کر رہے ہیں تو یہ کفر ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے شرک قرار دیا ہے۔
۲۔ تحلیل حرام اور تحریم حلال کے بارے میں ان کا اعتقاد وایمان ثابت ہو… شیخ الاسلام سے منقول عبارت اسی طرح ہے… لیکن انہوں نے اللہ تعالیٰ کی معصیت میں ان کی اطاعت کی ہو جیسا کہ مسلمان بسا اوقات گناہ کے کام کرتا ہومگرانہیں گناہ ہی سمجھتا ہے تو ایسے لوگ کافر نہیں بلکہ گناہ گار ہوں گے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب