میں نے صحابی جلیل حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ ٰ عنہ سے مروی یہ حدیث پڑھی کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین سے پوچھاکہ
''تم شھداء کون ک سمجھتے ہو؟انھوں نے عرض کیا ''یا رسول اللہﷺ! جو اللہ کی راہ میں قتل ہوجائے وہ شہید ہے۔آپﷺنےفرمایا!''پھر تو میری اُمت کے شھداء بہت کم ہوں گے''صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین نے عرض کی یارسول اللہ ﷺ پھرشھید کون ہیں؟آپﷺنے فرمایا! جوشخص اللہ کی راہ میں قتل ہوجائے وہ شہید ہے جو اللہ کے ر استے میں فوت ہوجائے وہ بھی شہید ہے۔جو طاعون سے فو ت ہو وہ بھی شہید ہے۔ جو پیٹ کی بیماری سے فوت ہو وہ بھی شہید ہے۔جو پانی میں غرق ہوجائے وہ بھی شہید ہے۔''
تو کیا وہ شخص جو نشہ کی حالت میں ہو اور پانی میں غرق ہوجائے وہ بھی شہید ہے؟کیونکہ حدیث میں غرق ہونے والے کو شہید بتایا گیا ہے۔ اُمید ہے جواب سے مستفید فرمایئں گے؟
اس سوال کا جواب دینے سے پہلے میں توجہ اس طرف مبزول کرواناچاہتا ہوں۔ کہ اس دور میں بہت سے لوگوں کےہاں شہید کے لفظ کااستعمال کا رواج بہت عام ہوگیا ہے۔حتیٰ کہ جو شہادت کا اہل نہیں ہوتا اسے بھی لوگ شہید کہنا شروع کردیتے ہیں۔حالانکہ یہ حرام ہےکیونکہ شہید صرف اسے ہی کہناچاہیے جس کے شہید ہونے کی نبی کریمﷺنے شہادت دی۔
رسول اللہ ﷺ کےشہادت دینے کی دو قسمیں ہیں:
1۔آپ کسی معین شخص کے بارے میں یہ شہادت دیں کہ وہ شہید ہے۔جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے کہ نبی کریمﷺ احد پہاڑ پر چڑھے اس وقت آپ کے ساتھ ابو بکررضی اللہ تعالیٰ ٰ عنہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ ٰ عنہ اورحضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ ٰ عنہ بھی تھے پہاڑ پر لرزہ طاری ہوا تو آپ ﷺنے فرمایا:
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کو ساتھ لے کر احد پہاڑ پر چڑھے تو احد کانپ اٹھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: احد! قرار پکڑ کہ تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دوشہید ہیں۔''
تو جسے نبی کریمﷺ شہید قراردیں۔آپﷺ کی تصدیق واتباع میں ہم بھی اسے شہید کہیں گے۔
2۔جنھیں نبی کریمﷺ علی وجہ العموم شہید قراردیں۔جیسا کہ اس حدیث میں ہے جس کی طرف سائل نے اشارہ کیا ہے۔کہ جو شخص اللہ کے راستے میں مقتول ہو وہ شہید ہے۔؟جو اللہ کےراستے میں فوت ہو تو وہ بھی شہید ہے جو غرق ہوجائے وہ بھی شہید ہے اوراسی طرح کے دیگرشہداء جنھیں شہادت عامہ کے اعتبار سے شہید کیا گیا ہے اس قسم کے اعتبار سے کسی معین شخص کےبارے میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ شہید ہے۔ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ جس شخص کا یہ وصف ہو وہ شہید ہے۔لیکن کسی معین شخص کو بطور خاص نہیں کہہ سکتے کہ وہ شہید ہے کیونکہ شہادت وصف اورچیز ہے اورشہادت عین اور ہے۔اس لئے امام بخاریرحمۃ اللہ علیہ نے پنی''صحیح'' میں ایک باب کا عنوان ہی اسی طرح قائم فرمایا ہے کہ باب لایقال فلان شھید۔۔۔یہ نہ کہا جائے کہ فلاں شخص شہید ہے۔۔۔اور انہوں نے نبی کریمﷺ کے ان الفاظ سے استدلال کیا ہےکہ:
''اللہ بہتر جانتا ہے کہ اس کے راستے میں کون جہاد کرتا ہے''
نیز یہ کہ
''اللہ بہتر جانتا ہے کہ اس کی راہ میں کسے زخم لگتا ہے؟''
پھر آپ نے اس عنوان کے تحت وہ مشہور اور طویل حدیث بیان فرمائی ہے۔جس میں اس آدمی کا قصہ مذکور ہے۔ جو ایک غزوے میں نبی کریمﷺ کے ساتھ تھا۔ اور وہ بہت بہادر اور دلیر تھا۔اور کسی بھی دشمن کو وار کئے بغیر جانے نہ دیتا تھا ۔صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے اس کی تعریف کی تو آپﷺ نے فرمایا کہ:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک آدمی زندگی بھر بظاہر اہل جنت کے سے کام کرتا ہے حالانکہ وہ اہل دوزخ میں سے ہوتا ہے۔''
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا یہ استدلال بالکل واضح ہے۔کیونکہ نبی کریمﷺ کے ارشاد کے''اللہ بہتر جانتا ہے۔کہ اس کے راستے میں کون جہاد کرتا ہے۔''سے معلوم ہوتا ہے کہ ظاہر حال کبھی باطنی حال کے خلاف بھی ہوتا ہے۔اوراخروی احکام ظاہر کے نہیں بلکہ باطن کے مطابق ہوں گے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس باب کے تحت جو واقعہ بیان فرمایاہے۔کہ حضرات صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین میں سے ایک شخص نے اس کے حالات کا جائز ہ لیا۔ تو معلوم ہوا کہ آخر میں اس شخص نے خود کشی کرلی تھی۔لہذا ہم لوگوں کے ظاہر حال کے مطابق ان پر اخروی احکام منطبق نہیں کرسکتے اور نصوص کو ہم عموم پر رکھیں گے لیکن یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ کہ یہ شخص اس نص کے مصداق ہے یانہیں۔
حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ نے ''فتح الباری فی شرح صحیح البخاری'' میں زکر کیا ہے۔کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ ٰ عنہ بن خطاب نے خطبہ دیتے ہوئے ارشادفرمایا کہ تم اپنے غزوات کے بیان میں کہتے ہو کہ فلاں شخص شہید ہے۔ اور فلاں شخص شہید فوت ہوا حالانکہ ہوسکتا ہے کہ اس کی سواری نے اسے گرادیا ہو لیکن تم نہ کہاکرو بلکہ اس طرح کہاکرو۔جس طرح رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ:
''جو شخص اللہ کے راستے میں فوت ہوا یا قتل ہوا وہ شہید ہے۔''
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے۔ لہذا ہم کسی کو نص کے مطابق ہی شہید کہیں گے۔ یعنی اگر آپ ﷺ نے کسی معین شخص کو ہی شہید قرار دیا ہے تو ہم بھی اسے شہید کہیں گے اوراگر شہادت کو آپ نے علی العموم فرمایا ہے۔ تو ہم بھی اسے عموم پر ہی رکھیں گے۔لہذا سائل کا جو یہ سوال ہے کہ ایک شخص جونشہ کی حالت میں غرق ہوا تو کیا وہ شہید شمار ہوگا؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس طرح غرق ہونے والے کسی معین شخص کو ہم شہید نہیں کہہ سکتے خواہ غرق ہوتے وقت اس نے شراب پی تھی یا نہیں پی تھی۔وہ نشے میں تھا یا نشے میں نہیں تھا۔
نشہ کی مناسبت سے یہاں زکر کرنا بھی بے جا نہ ہوگا۔کہ شراب پینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ہرعاقل مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اسے چھوڑ دے اور اس سے اجتناب کرے جیسا کہ اللہ تعالیٰ ٰ نے اسے ترک کرنے کاحکم دیا ہے اگر کوئی شخص شراب پئے حتیٰ کہ اسے نشہ ہوجائے۔تو اسے کوڑے لگائے جایئں گے۔اگر پھر پئے تو پھر کوڑے لگائے جایئں گے۔اگر پھر پئے تو تیسری بار کوڑے لگائے جائیں گے۔اور اگرچوتھی بار پیئے تو بعض اہل علم کے نزدیک اسے قتل کردیاجائےگا۔جیسا کہ حدیث میں آیا ہے۔اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ نہیں اسے قتل نہیں کیا جائےگا۔ کیونکہ وہ حدیث منسوخ ہے۔جس میں قتل کرنے کا حکم ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔کہ اگرکوئی کوڑے لگنے سے باز آجائے تو اسے قتل نہیں کیا جائےگا۔اور اگر شراب نوشی اس قدر پھیل جائے کہ باربار سزا کے باوجود بھی لوگ اس سے باز نہ آیئں تو پھراس کی سزا قتل ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب