حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
تم قیامت کے دن اپنے رب کا اسی طرح دیدار کرو گے جس طرح تم چودھویں رات کے چاند کو دیکھتے ہو...دیدار الٰہی کے سلسلے میں تم ظلم نہیں کیے جائو گے۔''
سوال یہ ہے کہ قیامت کے دن دیدارالٰہی حق ہے؟کیا مذکورہ بالا حدیث صحیح ہے۔؟کیا دیدارالٰہی سب لوگوں کو ہوگا۔ یا صرف مومنوں کو؟بعض راویان حدیث کہتے ہیں۔کہ اللہ تعالیٰ ٰ رات کے آخری ثلث میں آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے کیا یہ حدیث صحیح ہے؟
یہ حدیث صحیح وثابت اور اس بات کی دلیل ہے کہ مومنوں کو یقیناً اللہ تعالیٰ ٰ کا دیدار ہوگا۔جس طرح وہ چاہے گا اور کافر دیدار الٰہی سے محروم ہوں گے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ٰ ہے:
''بے شک یہ لوگ اس روز اپنے پروردیگار ( کے دیدار سے ) اوٹ اور حجاب میں ہوں گے۔''
بہت سی احادیث سے یہ ثابت ہے کہ مومنوں کو جنت میں دیدار الٰہی کی سعادت میسر ہوگی جیسا کہ قرآن کریم سے بھی یہ ثابت ہے۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ٰ ہے:
''اس روز بہت سے منہ رونق دار ہوں گے (اور ) اپنے پروردیگار کے م محو دیدار ہوں گے!''
اور فرمایا:
''اور تختوں پر (بیٹھے ہوئے ) دیکھ کر رہے ہوں گے۔''
رویت باری کی تحقیق کے باوجود اس کی کیفیت کو ہم نہیں جانتے کیونکہ دار آخرت کو دنیا پر قیاس کیا جاسکتا ہے نہ غیب کو حاضر پر اور ہمیں چاہیے کہ صرف اپنے علم کے مطابق بات کریں۔
2۔ نزول باری تعالیٰ ٰ کے بارے میں صحیح احادیث موجود ہیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جب رات کاآخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے۔تو ہمارارب آسمان دنیا پر نزول فرماتا اور ارشاد فرماتا ہے کہ ہے کوئی دعا کرنے والا کہ میں اس کی دعاء کو شرف قبولیت سے نوازوں؟ہے کوئی معافی مانگنے والا کہ میں اسے معاف کردوں؟ ہے کوئی توبہ کرنے والا کہ میں اس کی توبہ قبول کرلوں؟''
لیکن یہ نزول امور غیب میں سے ہے۔ہم اس پرایمان تو رکھتے ہیں۔لیکن اس کی کیفیت کے بارے میں بحث نہیں کریں گے۔ اس حدیث سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ رات کا آخری حصہ افضل ہے اس میں نماز دعاء اور توبہ واستغفار مستحب ہے اور یہ قبولیت کا وقت ہے!
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب