سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(102) قرآن کریم کی محکم ومتشابہ آیات

  • 8361
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-19
  • مشاہدات : 8026

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قرآن کریم کی محکم اور متشابہ آیا ت کون سی ہیں؟قرآن کریم کی تمام آیات کو محکم ہی کیوں نہ بنادیاگیا تاکہ لو گ حق کے  سوا اور کوئی تاویل کرہی نہیں سکتے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ   قرآن کریم کی تعریف میں اللہ تعالیٰ ٰ نے تین اوصاف زکر فرمائے ہیں:

1۔قرآن سارے کا سارا محکم ہے 'چنانچہ فرمایا:

﴿تِلكَ ءايـتُ الكِتـبِ الحَكيمِ ﴿١﴾...سورة يونس

''یہ اس کتاب کی آیا ت ہیں جو حکمت ودانش سے لبریز ہے۔''

اور فرمایا:

﴿تـبٌ أُحكِمَت ءايـتُهُ...١﴾...سورة هود

'' یہ وہ کتاب ہے۔جس کی آیتیں مستحکم ہیں۔''

2۔دوسری صفت یہ ہے کہ قرآن کریم متشابہ ہے جیسا کہ ارشاد ہے:

﴿اللَّهُ نَزَّلَ أَحسَنَ الحَديثِ كِتـبًا مُتَشـبِهًا...٢٣﴾... سورة الزمر

''اللہ نے نہایت اچھی باتیں نازل فرمائی ہیں (یعنی ) کتاب(جس کی آیتیں باہم) ملتی جلتی ہیں۔''

یہ حکم عام ہے۔جو سب قرآن کو شامل ہے۔اور اس کے معنی یہ ہیں کہ قرآن محکم ہے۔ اپنے اخبار احکام اور الفاظ کے اعتبار سے نہایت مستحکم ہے۔ اور یہاں متشابہ کے معنی یہ ہیں۔ کہ کمال عمدگی  تصدیق اور ہم آہنگی کے اعتبار سے قرآن کے بعض مقام بعض دیگر سے مشابہت  رکھتے ہیں۔قرآن کریم کے احکام واخبار میں قطعاً کوئی تناقض نہیں ہے۔ بلکہ سارے کا سارا قرآن ایک دوسرے مقام کی  تصدیق بھی کرتا ہے۔ اور اس کی سچائی کی شہادت بھی دیتا ہے۔جہاں انسان کو بظاہر کوئی تعارض محسوس ہو وہاں  تدبر اور غور وفکر سے کام لینا چاہیے۔ ارشاد باری  تعالیٰ ٰ ہے:

﴿أَفَلا يَتَدَبَّر‌ونَ القُر‌ءانَ وَلَو كانَ مِن عِندِ غَيرِ‌ اللَّهِ لَوَجَدوا فيهِ اختِلـفًا كَثيرً‌ا ﴿٨٢﴾... سورةالنساء

''بھلا یہ قرآن میں غور کیوں نہیں کرتے اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کا(کلام) ہوتا تو اس میں (بہت سا) اختلاف پاتے۔''

3۔قرآن کاتیسرا وصف یہ بیان ہوا کہ اس کی بعض آیات محکم اور بعض متشابہ ہیں۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ٰ ہے:

﴿هُوَ الَّذى أَنزَلَ عَلَيكَ الكِتـبَ مِنهُ ءايـتٌ مُحكَمـتٌ هُنَّ أُمُّ الكِتـبِ وَأُخَرُ‌ مُتَشـبِهـتٌ...٧﴾... سورة آل عمران

''وہی تو ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی جس کی بعض آیتیں محکم ہیں۔(اور ) وہی اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ ہیں۔''

یہاں محکم سے مراد وہ آیات ہیں جن کے معنی واضح اور ظاہر ہیں کیونکہ اس کے مقابل یہاں الفاظ یہ ہیں۔ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ اور ایک لفظ کی تفسیر اس کے بالمقابل استعمال ہونے والے لفظ ہی سے معلوم ہوسکتی ہے۔یہ تفسیر  کا ایک اہم قاعدہ ہے۔ جو مفسر کے سامنے رہنا چاہیے۔مثلا ارشا د باری تعالیٰ ٰ ہے۔﴿ َانفِرُوا ثُبَاتٍ أَوِ انفِرُوا جَمِيعًا﴾اس میں لفظ ''ثبات'' کے  سمجھنے میں انسان کو مشکل محسوس ہوتی ہے۔لیکن جب ہم اس کے بالمقابل استعمال ہونے والے الفاظ ﴿أَوِ انفِرُوا جَمِيعًا﴾کو دیکھتے ہیں۔ تو یہ مشکل دور ہوجاتی ہے۔اور بات سمجھ میں آجاتی ہے۔کہ ثبات کے معنی متفرق اور الگ الگ کے ہیں اسی اصول کے مطابق جب ہم اس آیت کریمہ:

﴿وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ﴾... سورة آل عمران

''جس کی بعض آیتیں محکم ہیں۔(اور) وہی اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ ہیں۔''

پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ محکم سے مراد وہ آیات ہیں جن کے معنی بالکل واضح اور غیر مشتبہ ہیں کہ انہیں عام و خاص سبھی لوگ جانتے ہیں۔جیسے(وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ) جیسی آیات جن کے معنی بالکل ظاہر ہیں۔

اسی طرح قرآن کریم کی بعض آیات متشابہات ہیں جن سے مراد ایسی آیات ہیں۔جن کے معنی بہت سے لوگوں کےلئے مخفی ہیں۔کہ ان کے معنی اللہ تعالیٰ ٰ اور  راسخ فی العلم علماء ہی جانتے ہیں جیسا کہ فرمایا:

﴿ مُتَشـبِهـتٌ فَأَمَّا الَّذينَ فى قُلوبِهِم زَيغٌ فَيَتَّبِعونَ ما تَشـبَهَ مِنهُ ابتِغاءَ الفِتنَةِ وَابتِغاءَ تَأويلِهِ وَما يَعلَمُ تَأويلَهُ إِلَّا اللَّهُ وَالرّ‌سِخونَ فِى العِلمِ...٧﴾... سورة آل عمران

''اور  بعض متشابہ ہیں تو جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے۔وہ متشابہات کا اتباع کرتے ہیں تاکہ فتنہ برپاکریں اور مراد اصلی کا پتہ لگائیں حالانکہ مراد اصلی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور جو لوگ علم میں     دستگاہ کامل رکھتے ہیں۔''

یہاں قراءت کے بارے میں آئمہ سلف کے دو قول ہیں۔ایک قول تو یہ ہے کہ الا اللہ پر وقف کیا جائے۔اور دوسرا قول یہ ہے کہ یہاں وقف نہ کیا جائے۔ بلکہ وصل کے ساتھ یعنی اسے آگے ملا کر پڑھا جائے۔بہرحال یہاں دونوں طرح پڑھنا جائز ہے۔

سائل نے جو یہ پوچھا ہے کہ اس میں کیا حکمت ہے۔ کہ سارے قرآن کو محکم کیوں نہ بناگیا گیا اور اس کی بعض آیات کو متشابہ کیوں بنایا گیا ہے؟اس کا جواب دو طرح سے ہے ایک یہ کہ معنی عام کے اعتبار سے قرآن سارے کاسارا محکم ہے۔جیسا کہ ہم نے جواب کے آغاذ میں زکر کیا حتیٰ کہ اس آیت کریمہ کے حوالے سے بھی قرآن محکم ہے اور وہ اس طرح کے جب ہم متشابہ کا محکم کے ساتھ ملا کر جائزہ لیں گے۔تو اس کے معنی بھی واضح اور ظاہر ہوجایئں گے اور اس طرح سارا قرآن ہی محکم ہوگا۔

دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ ٰ نے کچھ آیات کو متشابہ قرار دیا ہے۔ جن کے سمجھنے کےلئے تدبر غوروفکر اور انہیں محکم کی طرف لوٹانے کی ضرورت ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ ٰ نے انہیں ایک خاص حکمت کے پیش نظرمتشابہ بنایا ہے اور وہ حکمت ہے ابتلاء امتحان اور آزمائش کہ بعض لوگ ان آیات متشابہات کو فتنہ کا ذریعہ بنالیتے ہیں۔اور ان کے حوالے سے قرآن پر طعن وتشکیک کا الزام ٹھراتے ہیں۔حالانکہ  جس طرح اللہ  تعالیٰ ٰ کے بیا ن فرمائے ہوئے احکام شریعت یا اس کی آیات شریعت۔۔۔مثلا۔۔۔ قرآن۔۔۔میں سے کچھ متشابہ ہیں اس طرح اس کو کوفی وقدری آیات میں سے بھی بعض متشابہ ہیں۔اللہ تعالیٰ ٰ اپنے بندوں کے امتحان کے لئے بعض اشیاء کا حکم دیتا ہے تاکہ وہ آزمائے کہ بندے اس کے حکم پر عمل کرتے ہیں یا نہیں جیسا کہ اس نے اہل سبت پر ہفتہ کے دن مچھلی کے شکار پر پابندی عائد کرکے ان کی آزمائش کی تھی اور اس میں بھی ان کی  آزمائش تھی۔ کہ ہفتے کے دن سطح آب پر بڑی کثرت سے مچھلیاں نمودار ہوتی تھیں۔اور ہفتہ کے علاوہ باقی دنوں میں نمودار نہیں ہوتی تھی۔لیکن وہ لوگ اس آزمائش میں صبر نہ کرسکے۔ اور شکار کے لئے انھوں نے معروف ومشہور حیلہ اختیار کرلیا۔ کہ جمعہ کے دن جال لگا لیا۔تاکہ اس میں مچھلیاں  پھنس جایئں اور اتوار کو ان کا شکار کرلیں لیکن اس حیلہ سازی پر اللہ تعالیٰ ٰ نے انہیں سزا دی اسی  طرح اللہ تعالیٰ ٰ نے حضرات صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین  کی بھی آزمائش کی چنانچہ ملاحظہ فرمایئے آیت کریمہ:

﴿يـأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لَيَبلُوَنَّكُمُ اللَّهُ بِشَىءٍ مِنَ الصَّيدِ تَنالُهُ أَيديكُم وَرِ‌ماحُكُم لِيَعلَمَ اللَّهُ مَن يَخافُهُ بِالغَيبِ...٩٤﴾... سورة المائدة

مومنو! کسی قدر شکار سے جن کو تم ہاتھوں ار نیزوں سے پکڑ سکو اللہ  تمہاری آزمائش کرے گا۔(یعنی حالت احرام میں شکار کی ممانعت سے) تا کہ معلوم کرے کہ اس سے غائبانہ کون ڈرتا ہے۔''

اللہ تعالیٰ ٰ نے حضرات صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین  کی آزمائش کی حالت احرام میں شکار سہولت کے ساتھ ان کی دسترس میں تھا لیکن صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین  نے صبر  کیا۔ اور اللہ تعالیٰ ٰ کے اس حرام قرار دیئے شکار کو ہاتھ بھی نہ لگایا اس طرح آیات قرآنیہ میں بھی بعض متشابہ اشیاء ہوتی ہیں۔جن میں بظاہر تعارض اور ایک دوسرے مقام کی تکذیب ہوتی ہے۔لیکن راسخ فی العلم لوگ جانتے ہیں۔کہ ان آیات میں تطبیق کی کیا صورت ہے۔لیکن اہل فتنہ وشران آیات کی وجہ سے یہ کہنے لگتے ہیں کہ قرآن مجید میں تعارض او تناقض ہے:۔

﴿فَأَمَّا الَّذينَ فى قُلوبِهِم زَيغٌ فَيَتَّبِعونَ ما تَشـبَهَ مِنهُ ابتِغاءَ الفِتنَةِ وَابتِغاءَ تَأويلِهِ وَما يَعلَمُ تَأويلَهُ إِلَّا اللَّهُ...٧﴾... سورة آل عمران

'' تو جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے۔وہ اس میں سے ان آیتوں کی پیروی کرتے ہیں۔ جو باہم مختلف معنوں کی متحمل ہوتی ہیں۔وہ لوگ فتنہ کے متلاشی ہوتے ہیں اور ان آیات کی حقیقت معلوم کرنا چاہتے ہیں۔حالانکہ ان کی حقیقت تو اللہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں''

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاوی بن باز رحمہ اللہ

جلددوم 

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ