سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(99) کیا قبر میں میت میں زندگی لوٹ آتی ہے؟

  • 8358
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 5217

سوال

(99) کیا قبر میں میت میں زندگی لوٹ آتی ہے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بحوث العلمیۃ والافتاء کی فتویٰ کمیٹی کے علم میں یہ سوال آیا جو سماحۃ الرئیس العام کی خدمت میں پیش ہوا تھا کہ میں نے علماء اسلام سے سنا ہے کہ مردہ قبرمیں زندہ ہوجاتا ہے۔اور وہ فرشتوں کے سوال کا جواب دیتا ہے۔اوراگر اس میں کفر اور دنیا کی زندگی میں اسلام پرعدم استقامت ثابت ہو تو اسے عذاب دیا جاتا ہے۔ مبادی اسلام کے شناسا ہونے کی حیثیت سے مجھے قرآن کریم سے ایسی واضح دلیل نہیں ملتی جس سے یہ معلوم ہو کہ قبر میں سوال وجواب اور عذاب ہوتا ہے بلکہ ارشاد باری تعالیٰ ٰ تو یہ ہے:

﴿  يـأَيَّتُهَا النَّفسُ المُطمَئِنَّةُ ﴿٢٧ ار‌جِعى إِلى رَ‌بِّكِ ر‌اضِيَةً مَر‌ضِيَّةً ﴿٢٨ فَادخُلى فى عِبـدى ﴿٢٩ وَادخُلى جَنَّتى ﴿٣٠﴾... سورة الفجر

''اے اطمینان پانے والی روح!اپنے پروردیگار کی طرف لوٹ چل تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی'تو میرے(ممتاز) بندوں میں شامل ہوجا اور میری بہشت میں داخل ہوجا۔''

میرے ناقص فہم کے مطابق جسم سے نکلنے کے بعد روح اپنے رب کے پاس جا پہنچتی ہے۔ میں نہیں سمجھتا  کہ روح قبر میں اپنے جسم کے ساتھ مل جاتی ہے۔اور اللہ تعالیٰ ٰ کی نعمتوں سے مستفید ہوتی ہے ارشاد باری تعالیٰ ٰ ہے:

﴿قالوا رَ‌بَّنا أَمَتَّنَا اثنَتَينِ وَأَحيَيتَنَا اثنَتَينِ...١١﴾... سورة الغافر

''وہ کہیں گے کہ اے ہمارے پروردیگار ! تو نے ہم کو دودفعہ بے جان کیا اور دودفعہ جان بخشی۔''

میں اس آیت سے یہ سمجھتا ہوں کہ دو دفعہ کی موت سے مراد وقت نطفہ اور جسم سے جان کے خروج کے وقت کی موت ہے جس طرح کہ دو دفعہ کی زندگی سے مراد شکم مادر اور بعثت کے وقت کی زندگی ہے اس آیت میں قبر کے سوال جواب اور عذاب کی طرف اشارہ نہیں ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ٰ ہے:

﴿قالوا يـوَيلَنا مَن بَعَثَنا مِن مَر‌قَدِنا...٥٢﴾... سورة يس

''وہ کافر کہیں گے (اے ہے) ہمیں  ہماری خوابگاہوں سے کس نے (جگایا)اٹھایا۔''

اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ کفار(اپنی قبروں سوئے ہوئے ہوں گے اور نیند تو عذاب کے منافی ہے۔آخر میں امید ہے کہ مجھے اس سوال کا شافی جواب ملے گا جیسا کہ آپ کے جوابات ہمیشہ شافی ہی ہوتے ہیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کمیٹی نے اس کا یہ جواب دیا:

اولاً: احکام شرعیہ کے دلائل جیسے قرآن کریم سے ہوتے ہیں۔ایسے ہی رسول اللہ ﷺ کی صحیح ثابت شدہ سنت سے بھی ہوتے ہیں۔خواہ وہ قولی ہو یا فعلی یاتقریری کیونکہ اللہ تعالیٰ ٰ کا یہ حکم عام ہے کہ آپ ہمارے پاس جو بھی نصوص کتاب وسنت لے کر آیئں۔ہم ان کو لے لیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ٰ ہے:

﴿وَما ءاتىكُمُ الرَّ‌سولُ فَخُذوهُ وَما نَهىكُم عَنهُ فَانتَهوا...٧﴾... سورة الحشر

‘‘جوچیز تم کو رسول (ﷺ)دیں وہ لے لواورجس سے منع کریں(اس سے)بازرہو۔

کیونکہ آپ خواہش نفس سے بات نہیں فرماتے تھے بلکہ وحی الٰہی کی روشنی میں ہمارے لئے احکام شریعت بیان فرماتے تھے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ٰ ہے:

﴿وَما يَنطِقُ عَنِ الهَوى ﴿٣ إِن هُوَ إِلّا وَحىٌ يوحى ﴿٤ عَلَّمَهُ شَديدُ القُوى ﴿٥﴾... سورة النجم

''اور وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتے یہ (قرآن) تو اللہ کا حکم ہے۔ جو ان کی طرف بھیجاجاتا ہے۔ان کو بڑی قوتوں والے نے یہ سکھایا۔''

نبی کریمﷺ جو کچھ بھی لے کر آئے اس کا اتباع کرنا اللہ تعالیٰ ٰ کے ساتھ ایمان اور اس کی محبت کی دلیل ہے اور اس کے نتیجہ میں رسول اللہﷺ کی اتباع کرنے والے سے اللہ تعالیٰ ٰ بھی محبت فرماتا اور اس کے گناہ معاف فرمادیتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ٰ ہے:

﴿قُل إِن كُنتُم تُحِبّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعونى يُحبِبكُمُ اللَّهُ وَيَغفِر‌ لَكُم ذُنوبَكُم...٣١﴾... سورة آل عمران

‘‘(اے پیغمبرلوگوں سے)کہہ دیجئے کہ اگرتم اللہ سےمحبت کرتے ہوتومیری پیروی کرو،اللہ بھی تم سے محبت کرے گااورتمہارے گناہ معاف کردے گا۔’’

اللہ تعالیٰ ٰ نے آپﷺ کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور آپ کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے؛

﴿قُل أَطيعُوا اللَّهَ وَالرَّ‌سولَ فَإِن تَوَلَّوا فَإِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الكـفِر‌ينَ ﴿٣٢... سورة آل عمران

''(اے پیغمبرﷺ!) کہہ دیجئے (لوگوں) اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو اگر وہ نہ مانیں تو اللہ بھی کافروں کو دوست نہیں رکھتا۔''

اور فرمایا:

﴿يـأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّ‌سولَ وَأُولِى الأَمرِ‌ مِنكُم فَإِن تَنـزَعتُم فى شَىءٍ فَرُ‌دّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّ‌سولِ إِن كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ‌ ذلِكَ خَيرٌ‌ وَأَحسَنُ تَأويلًا ﴿٥٩﴾... سورة النساء

‘‘اے ایمان والو!اللہ اوراس کے رسول کی فرماں برداری کرواورجوتم میں سے صاحب حکومت ہیں ان کی بھی اوراگرکسی بات میں تمھارا اختلاف واقع ہو تواگراللہ اورروزآخرت پر ایمان رکھتے ہوتواس میں اللہ اوراس کے رسول (کے حکم)کی طرف رجوع کرو۔یہ بہت اچھی بات ہے اوراس کاانجام (نتیجہ)بھی اچھا ہے۔’’

﴿مَن يُطِعِ الرَّ‌سولَ فَقَد أَطاعَ اللَّهَ وَمَن تَوَلّى فَما أَر‌سَلنـكَ عَلَيهِم حَفيظًا ﴿٨٠﴾... سورةالنساء

‘‘جس شخص نے رسول کی فرماں برداری کی تو بے شک اس نے اللہ کی فرماں برداری کی اورجو نافرمانی کرے تواے پیغمبر!تمہیں ہم نے ان کا نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔’’

اس طرح قرآن کریم کی بہت سی آیات ہیں۔جن میں ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کریں ۔آپ کااتباع کریں۔اور جو کچھ آپ سے ثابت ہے۔اسے لے لیں۔اور اس کے مطابق عمل کریں۔رسول اللہ ﷺ کی سنت صحیحہ حجت ہے اور اس سے عقیدہ وعمل کے احکام ثابت ہوتے ہیں۔جس طرح آیات قرآن حجت ہیں۔اور ان سے بھی عربی زبان کے قواعد کے تقاضوں کے مطابق اور عربوں کے اپنی زبان کوسمجھنے کے طریقوں کے مطابق صراحتاً اور استنباطاً احکام ثابت ہوتے ہیں۔

 ثانیاً:عقلی طور پر کافروں کے لئے عذاب قبر ممکن ہے۔قرآن کریم سے بھی یہ ثابت ہے ارشادباری  تعالیٰ ٰ ہے:

﴿وَحاقَ بِـٔالِ فِر‌عَونَ سوءُ العَذابِ ﴿٤٥ النّارُ‌ يُعرَ‌ضونَ عَلَيها غُدُوًّا وَعَشِيًّا وَيَومَ تَقومُ السّاعَةُ أَدخِلوا ءالَ فِر‌عَونَ أَشَدَّ العَذابِ ﴿٤٦﴾... سورة غافر

''اور آل فرعون کو سخت عذاب نے آگھیرا (یعنی) آتش جہنم کے صبح وشام اس کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں۔اور جس روز قیامت برپا ہوگی (حکم ہوگاکہ) آل فرعون کو سخت عذاب میں داخل کرو۔''

یہ آیت کریمہ قبر میں آگ کے عذاب کے اثبات کے لئے واضح دلیل ہے کہ ایک تو اس میں صبح وشام کازکر ہے۔اور قیامت کے دن کوئی صبح شام نہ ہوگی۔اور آیت کریمہ کے آخر میں جو یہ فرمایا:

﴿ وَيَومَ تَقومُ السّاعَةُ أَدخِلوا ءالَ فِر‌عَونَ أَشَدَّ العَذابِ ﴿٤٦﴾... سورة غافر

''اور جس روز قیامت برپا ہوگی(حکم ہوگا کہ) آل فرعون کو سخت عذاب میں داخل کرو۔''

یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قیامت انہیں کم تر درجہ کا عذاب ہورہا ہے اور وہ آگ کے سامنے پیش کیا جانا اور وہ عذاب قبر ہی ہے اور جزاء کے بارے میں اللہ تعالیٰ ٰ کے حکم عدل میں فرعون آل فرعون اور دیگر سب کافر برابر ہیں۔اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ٰ ہے:

﴿فَذَر‌هُم حَتّى يُلـقوا يَومَهُمُ الَّذى فيهِ يُصعَقونَ ﴿٤٥ يَومَ لا يُغنى عَنهُم كَيدُهُم شَيـًٔا وَلا هُم يُنصَر‌ونَ ﴿٤٦ وَإِنَّ لِلَّذينَ ظَلَموا عَذابًا دونَ ذلِكَ وَلـكِنَّ أَكثَرَ‌هُم لا يَعلَمونَ ﴿٤٧﴾... سورة الطور

''پس ان کو چھوڑ دو یہاں تک کہ وہ روز جس میں وہ بے ہوش کردیئے جایئں گے سامنے آجائے جس دن ان کا کوئی داؤ(مکرو فریب) کچھ بھی کام نہ آئے گا۔اور نہ ان کو(کہیں سے) مدد پہنچے گی۔اور یقیناً ظالموں کےلئے اس کے سوا اور عذاب (سزا) بھی ہے۔لیکن ان میں کے اکثر نہیں جانتے۔''

یہ آیت کریمہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ کافروں کو قیامت سے پہلے کمتر عذاب ہوتا ہے۔یہاں عذاب عام ہے۔ان کو دنیا میں ہونے والا عذاب بھی  مراد ہوسکتا ہے۔اور وہ عذاب بھی مراد ہوسکتا ہے۔جو انہیں قبروں میں ہوگا اور قبروں سے اٹھائے جانے کے بعد پھر انہیں عذاب اکبر ہوگا۔ احادیث صحیحہ سے یہ ثابت ہے۔ کہ نبی کریمﷺ نماز میں عذاب قبر سے  پناہ مانگتے اور صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کو بھی اس کا حکم دیتے۔ یہ بھی حدیث سے ثابت ہے کہ ایک مرتبہ جب آپﷺ نے نماز کسوف پڑھائی۔اور لوگوں کو خطبہ دیا تو فرمایا''لوگو! اللہ  تعالیٰ ٰ سے عذاب قبر سے پناہ چاہو۔''اسی طرح ایک مرتبہ آپ نے بقیع الغرقد میں اللہ تعالیٰ ٰ سے تین بار عذاب قبر سے پناہ مانگی جب کہ ایک صحابی کی میت کےلئے قبر کھودی جارہی تھی۔اگر عذاب قبر ثابت نہ ہوتا تو آپ ﷺ خود اس سے اللہ کی پناہ مانگتے نہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین  کو اس سے اللہ تعالیٰ ٰ کی پناہ مانگنے کا حکم دیتے۔نبی کریم ﷺ نے بیان فرمایا ہے کہ ارشاد باری تعالیٰ ٰ:

﴿يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذينَ ءامَنوا بِالقَولِ الثّابِتِ فِى الحَيوةِ الدُّنيا وَفِى الءاخِرَ‌ةِ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظّـلِمينَ وَيَفعَلُ اللَّهُ ما يَشاءُ ﴿٢٧﴾... سورة ابراهيم

اللہ تعالیٰ ٰ مومنوں(کے دلوں) کو (صحیح اور ) پکی بات سے دنیا کی زندگی میں بھی مضبوط رکھتا ہے اور آخرت میں بھی ( مضبوط رکھے گا) اور اللہ تعالیٰ ٰ ظالموں کو گمراہ کردیتا ہے اور اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔''

سے مراد یہ  ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ ٰ قبر میں سوال کے وقت مومن کو ثابت قدم رکھتا اور کافر کو رسوا کردیتا ہے۔مومن کو صحیح جواب کی توفیق ملتی اور قبر میں نعمتوں سے نوازا جاتا ہے۔جب کہ کافر ذلیل وخوار ہوتا۔جواب میں تردد کاشکار ہوتا اور پھر قبر میں عذاب سے دوچار ہوتا ہے چنانچہ اسے حدیث براء بن عاذب رضی اللہ تعالیٰ ٰ عنہ  کے حوالہ سے عنقریب بیان کیا جائے گا۔

عذاب قبر کی دلیلوں میں سے ایک حدیث وہ بھی ہے۔جو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ ٰ عنہ  سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ کا گزر دو قبروں کے پاس سے ہوا تو آپ نے  فرمایا:

 ان النبي صلي الله عليه وسلم مر بقبرين فقال انهما ليعذبان وما يعذبان في كبير اما احدهما فكان لا يستتر من البول واما الاخر فكان يمشي بالنميمة فدعا يجر يده رطبة فشقها نصفين وغرز علي كل قبر واحدة وقال لعله يخفف عنهما ما لم ينسا (صحيح بخاري)

''ان دو قبر والوں کو عذاب ہورہا ہے۔ اور عذاب بھی کسی ایسے بڑے گناہ کی وجہ سے نہیں ہورہا(جس سے بچنا ان کے لئے محال تھا) ان میں سے ایک  پیشاب سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغلی کرتا تھا۔آپﷺ نے ایک تروتازہ شاخ منگوائی اور اسے دو حصوں میں کرکے ہر ایک قبر پر ایک ایک حصہ گاڑ دیا اور فرمایا ہوسکتا ہے۔جب تک یہ شاخیں خشک نہ ہوں ان سے عذاب میں تخفیف کردی جائے۔''

رسول اللہ ﷺ کی متواتر احادیث سے یہ ثابت ہے کہ قبر میں میت سے  سوال ہوتا ہے۔اور پھر وہ اپنے عقیدے وعمل کے مطابق نعمت یا عذاب سے دو چار ہوتا ہے۔ ان متواتر احادیث کی  موجودگی میں عذاب قبر کے بارے میں شک کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ عذاب قبر کے بارے میں حضرات صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین  میں بھی قطعاً کوئی اختلاف نہیں تھا۔ تما م اہل سنت والجماعت بھی عذاب قبر کے قائل ہیں۔ اس سلسلے میں ایک مشہور حدیث وہ بھی ہے۔ جسے براء بن عاذب رضی اللہ تعالیٰ ٰ عنہ  سے روایت  کیا ہے۔ کہ ہم بقیع الغرقد میں ایک جنازے میں تھے۔ کہ رسول اللہ ﷺ بھی تشریف لے آئے اور آپ بیٹھ گئے قبر کھودی جارہی تھی۔ اور ہم اس قدر خاموش اور بے حس وحرکت بیٹھے تھے گویا کہ ہمارے سروں پر پرندے ہیں۔آپﷺ نےتین بار فرمایا:

اعوذ بالله من عذاب القبر (اخرجه احمد في المسند ٤/٢٨٧.٢٩٥)

''میں عذاب قبر سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں''

پھر فرمایا کہ:

ان العبد المؤمن إذا كان في انقطاع من الدنيا وإقبال من الآخرة نزل إليه ملائكة من السماء بيض الوجوه كأن وجوههم الشمس معهم كفن من أكفان الجنة وحنوط من حنوط الجنة حتى يجلسوا منه مد البصر ثم يجئ ملك الموت عليه السلام حتى يجلس عند رأسه فيقول أيتها النفس الطيبة أخرجي إلى مغفرة من الله ورضوان قال فتخرج تسيل كما تسيل القطرة من في السقاء فيأخذها فإذا أخذها لم يدعوها في يده طرفة عين حتى يأخذوها فيجعلوها في ذلك الكفن وفي ذلك الحنوط ويخرج منها كأطيب نفحة مسك وجدت على وجه الأرض قال فيصعدون بها فلا يمرون يعنى بها على ملأ من الملائكة الا قالوا ما هذا الروح الطيب فيقولون فلان بن فلان بأحسن أسمائه التي كانوا يسمونه بها في الدنيا حتى ينتهوا بها إلى السماء الدنيا فيستفتحون له فيفتح لهم فيشيعه من كل سماء مقربوها إلى السماء التي تليها حتى ينتهى به إلى السماء السابعة فيقول الله عز و جل اكتبوا كتاب عبدي في عليين وأعيدوه إلى الأرض فإني منها خلقتهم وفيها أعيدهم ومنها أخرجهم تارة أخرى قال فتعاد روحه في جسده فيأتيه ملكان فيجلسانه فيقولان له من ربك فيقول ربي الله فيقولان له ما دينك فيقول ديني الإسلام فيقولان له ما هذا الرجل الذي بعث فيكم فيقول هو رسول الله صلى الله عليه و سلم فيقولان له وما علمك فيقول قرأت كتاب الله فآمنت به وصدقت فينادى مناد في السماء ان صدق عبدي فافرشوه من الجنة وألبسوه من الجنة وافتحوا له بابا إلى الجنة قال فيأتيه من روحها وطيبها ويفسح له في قبره مد بصره قال ويأتيه رجل حسن الوجه حسن الثياب طيب الريح فيقول أبشر بالذي يسرك هذا يومك الذي كنت توعد فيقول له من أنت فوجهك الوجه يجئ بالخير فيقول أنا عملك الصالح فيقول رب أقم الساعة حتى أرجع إلى أهلي وما لي قال وان العبد الكافر إذا كان في انقطاع من الدنيا وإقبال من الآخرة نزل إليه من السماء ملائكة سود الوجوه معهم المسوح فيجلسون منه مد البصر ثم يجئ ملك الموت حتى يجلس عند رأسه فيقول أيتها النفس الخبيثة أخرجي إلى سخط من الله وغضب قال فتفرق في جسده فينتزعها كما ينتزع السفود من الصوف المبلول فيأخذها فإذا أخذها لم يدعوها في يده طرفة عين حتى يجعلوها في تلك المسوح ويخرج منها كأنتن ريح جيفة وجدت على وجه الأرض فيصعدون بها فلا يمرون بها على ملأ من الملائكة الا قالوا ما هذا الروح الخبيث فيقولون فلان بن فلان بأقبح أسمائه التي كان يسمى بها في الدنيا حتى ينتهى به إلى السماء الدنيا فيستفتح له فلا يفتح له ثم قرأ رسول الله صلى الله عليه و سلم { لا تفتح لهم أبواب السماء ولا يدخلون الجنة حتى يلج الجمل في سم الخياط } فيقول الله عز و جل اكتبوا كتابه في سجين في الأرض السفلى فتطرح روحه طرحا ثم قرأ { ومن يشرك بالله فكأنما خر من السماء فتخطفه الطير أو تهوي به الريح في مكان سحيق } فتعاد روحه في جسده ويأتيه ملكان فيجلسانه فيقولان له من ربك فيقول هاه هاه لا أدري فيقولان له ما دينك فيقول هاه هاه لا أدري فيقولان له ما هذا الرجل الذي بعث فيكم فيقول هاه هاه لا أدري فينادى مناد من السماء ان كذب فافرشوا له من النار وافتحوا له بابا إلى النار فيأتيه من حرها وسمومها ويضيق عليه قبره حتى تختلف فيه أضلاعه ويأتيه رجل قبيح الوجه قبيح الثياب منتن الريح فيقول أبشر بالذي يسوءك هذا يومك الذي كنت توعد فيقول من أنت فوجهك الوجه يجئ بالشر فيقول أنا عملك الخبيث فيقول رب لا تقم الساعة (اخرجه احمد ٤/٢٨٧/٢٩٥)

''مومن بندہ جب آخرت کی طرف آرہا اور دنیا سے جارہا ہوتا ہے تو اس کے پاس ایسے فرشتے آتے ہیں جن کے چہرے سورج کی طرح چمک رہے ہوتے ہیں۔ ان کے پاس جنت کے کفن اور جنت کی خوشبویئں ہوتی ہیں۔وہ اس کے پاس آکر جہاں تک اس کی نظر جاتی ہے۔بیٹھ جاتے ہیں اور فرماتے ہیں''اے پاک روح!آ اللہ کی مغفرت اور رضا مندی کی طرف !تو وہ روح اس طرح جسم سے باہر آجاتی ہے جس طرح مشکیزے کے منہ سے پانی کا قطرہ باآسانی باہر آجاتا ہے۔ملک الموت(موت کافرشتہ) اسے پکڑ لیتا ہے۔لیکن یہ فرشتے اس کے ہاتھ میں لمحہ بھر بھی نہیں رہنے دیتے حتیٰ کہ اسے پکڑ لیتے اور جنت کے کفن میں لپیٹ کر جنت کی خوشبو میں بسا دیتے ہیں۔ اس روح سے ایسی پاکیزہ خوشبو نکلتی ہے۔ جیسی کہ زمین کی کسی اعلیٰ اور پاکیزہ ترین کستوری کی خوشبو ہو فرشتے اس روح کو لے کر اوپر چڑھ جاتے ہیں۔اور فرشتوں کی جس جماعت کے پا س بھی ان کا گزرہوتا ہے۔وہ تو کہتے ہیں کہ یہ پاکیزہ روح کس کی ہے۔؟فرشتے کہتے ہیں کہ یہ فلاں بن فلاں کی روح ہے۔اس خوبصورت نام کے ساتھ اس کا زکر کرتے ہیں۔جودنیا میں اس کا سب سے اچھا اور خوبصورت نام ہوتا ہے۔حتیٰ کہ اسے لے کر آسمان کی طرف جاپہنچتے ہیں۔اور آسمان کے دروازے پر دستک دیتے ہیں۔تو دروازہ کھول دیاجاتا ہے۔ہر آسمان کے ملائکہ مقربین اگلے آسمان تک الوداع کرنے کےلئے اس کے ساتھ جاتے ہیں۔حتیٰ کہ اس آسمان تک پہنچ جاتے ہیں۔ جس میں اللہ تعالیٰ ٰ کی ذات گرامی ہے۔اللہ عزوجل ارشاد فرماتے ہیں۔''میرے بندے کے نامہ اعمال کو علیین میں لکھ دو''اسے زمین کی طرف لوٹا دو میں نے انہیں زمین سے پیداکیا۔زمین میں لوٹائوں گا اور دوبارہ پھر اسی زمین سے انہیں نکالوں گا۔چنانچہ اس کی روح کو اس کے جسم میں لوٹا دیا جاتا ہے۔اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں۔جو اسے بٹھا لیتے ہیں اور وہ اس سے پوچھتے ہیں۔''تیرا رب کون ہے؟'' یہ جواب دیتا ہے کہ ''میرا رب اللہ ہے۔''فرشتے پوچھتے ہیں''تیرا دین کیا ہے؟'' یہ جواب دیتا ہے ۔''میرادین اسلام ہے۔''فرشتے پوچھتے ہیں۔وہ آدمی کون ہیں جنھیں تمہاری طرف بھیجا گیا تھا؟'' یہ جواب دیتا ہے ۔''وہ اللہ کے رسولﷺ ہیں۔''فرشتے پوچھتے ہیں تمھیں کیسے علم ہوا؟تو یہ کہتا ہے۔'' میں نے اللہ کی کتاب کو پڑھا۔اس پر ایمان لایا۔اور اس کی میں نے تصدیق کی۔''آسمانوں سے ایک منادی(اعلان کرنے والا) یہ اعلان کرتا ہے۔''میرے بندے نے سچ کہا ہے۔اس کے لئے جنت کا بستر بچھا دو۔'' جنت کی طرف اس کے لئے ایک دروازہ کھول دو''آپ  ﷺنے فر ما یا اس سے جنت کی پا کیزہ ہوا ئیں اور خو شبوئیں آنا شروع ہو جا تی ہیں اور تاحد نظر  اس کی قبر کو کشادہ  کر دیا جا تا ہے ،  اس کے پا س ایک آ دمی آتا ہے جس کا چہرہ بہت خو بصو رت  جس کا لبا س بہت خو بصورت اور جس کی خو شبو بہت پا کیزہ ہو تی ہے  اور وہ کہتا ہے تمہیں بشا رت ہو اس چیز کی جس سے تم خو ش ہو جا ئو  یہ ہے تمہا را وہ دن  جس  کا تم سے  وعدہ کیا  جا تا تھا یہ مرد مو من پو چھتا ہے تم کو ن ہو تمہا را  چہرہ وہ ہے  جو خیر لا یا ہے یہ جواب دیتا ہے کہ میں تمہا را عمل  صا لح ہو ں  یہ کہتا ہے ۔اے میرے  رب قیا مت  قا ئم کر دے  تا کہ میں اپنے اہل و ما ل  کے پا س لو ٹ جا ئوں اسی طرح نبی ﷺ نے فر ما یا  جب کا فر  آ دمی  دنیا سے  جا رہا  اور آخرت کی طرف آ رہا ہو تا ہے تو اس کے پاس ایسے فر شتے آ تے ہیں جن کے چہرے کالے سیا ہ ہو تے ہیں  اور ان کے پا س تا ٹ ہو تے ہیں  وہ اس کے پا س تا حد نظر  بیٹھ  جا تے ہیں پھر حضرت ملک المو ت  تشریف لا تے اس کے سر کے پاس بیٹھ  جا تے اور فر ما تے ہیں اے خبیث روح  اللہ کی نا را ضی اور غضب کی  طرف یہ سن کر روح اس کے  جسم سے منتشر  ہو جا تی ہے  ملک المو ت  اس کے جسم سے اس طرح  کھینچ لیتے ہیں  جس طرح سے گیلی روئی کو سیخ کو کھینچ  لیا جا ئے  ملک  المو ت پکڑ لیتے ہیں فر شتے  لمحہ بھر لمحہ کے لئے  اسے ان کے ہا تھ  نہیں رہنے دیتے  حتی کہ اسے  ان ٹا ٹوں میں لپیٹ دیتے ہیں اور اس سے  ایسی انتہا ئی   سخت بد بو  خا رج ہو تی ہے کہ اس سے بڑھ کر روئے زمین پر کو ئی بد بو نہ ہو گی فر شتے اسے لے کر اوپر چڑھ جا تے ہیں اور فرشتو ں کی جس جما عت کے پا س سے بھی گزرتے وہ کہتے ہیں کہ یہ خبیث روح کس کی ہے فرشتے بتا تے ہیں  کہ یہ فلا ں بن فلا ں ہے دنیا کے  اس کے بد ترین   نا مو ں سے  اس کا تعا رف  کر واتے ہیں حتی  کہ وہ  اسے  لے کر  آسما ن دنیا  تک جا پہنچتے ہیں دستک دیتے   ہیں  مگر  اس کے لئے آسما ن  دنیا  کے  دروازے کو نہیں  کھو لا  جا تا ۔ پھر  رسو ل اللہ ﷺ نے اس  آ یت کر یمہ کی تلا وت فر ما ئی ۔

﴿ لا تُفَتَّحُ لَهُم أَبوبُ السَّماءِ وَلا يَدخُلونَ الجَنَّةَ حَتّى يَلِجَ الجَمَلُ فى سَمِّ الخِياطِ...٤٠﴾... سورة الاعراف

ان کے لئے نہ آ سمان کے دروا زے کھو لے جا ئیں گے  اور نہ وہ بہشت میں داخل ہو ں گے یہا ں تک اونٹ سو ئی کے نا کے سے نکل جا ئے ، اللہ عزوجل اس کے با رے میں ارشا د فر ما تا ہے کہ اس کے نا مہ اعما ل کو سجین یعنی زمین کی نچلی تہہ میں لکھ دو  چنا نچہ وہا ں سے اس کی  روح کو نیچے  پھنک دیا جا تا ہے پھر آ پ ﷺ نے اس آیت کر یمہ کی تلا وت فر ما ئی ، ہیں

﴿وَمَن يُشرِ‌ك بِاللَّهِ فَكَأَنَّما خَرَّ‌ مِنَ السَّماءِ فَتَخطَفُهُ الطَّيرُ‌ أَو تَهوى بِهِ الرّ‌يحُ فى مَكانٍ سَحيقٍ ﴿٣١﴾... سورة الحج

اور جو شخص  (کسی کو )اللہ کے سا تھ شریک مقرر کرے تو وہ گو یا ایسا ہے جیسے وہ آسما ن سے گر پڑے پھر اس کو پر ندے اچک لے جا ئیں  یا پھر ہوا اس کو کسی دور جگہ پر پھنک دے ، چنا نچہ اس کی روح بھی اسکے جسم میں لو ٹا دی جا تی ہے اس کے پا س دو فرشتے آ تے ہیں جو اسے بٹھا لیتے ہیں اور اس سے پو چھتے ہیں تیرا رب کو ن ہے  وہ  کہتا ہے ہا ئے افسو س میں نہیں جا نتا پھر وہ پو چھتے ہیں تیرا دین کیا ہے تو وہ جوا ب دیتا ہے ہا ئے افسو س میں نہیں جا نتا  پھر وہ پھر وہ پو چھتے ہیں یہ آدمی کو ن ہے جنہیں تمہا ری طرف  بھیجا گیا تھا  تو وہ جو ا ب دیتا ہے کہ ہا ئے افسو س میں نہیں جا نتا  تو آسمان سے منا دی کر نے والا یہ  اعلان  کر تا ہے کہ اس نے جھو ٹ بو لا ہے   اس کے لئے جہنم کا بستر  بچھا دو  جہنم کی طرف اس کا ایک دروازہ کھو ل دو  تو جہنم کی حرارت اور گرم ہو ا اس کے پا س    آ تی  ہے اور اس کی قبر تنگ ہو جا تی ہے  حتی کہ   اس کی پسلیا ں ایک دوسری میں دا خل ہو نے لگتی ہیں   اس کے پا س ایک آ دمی  آ تا ہے  جس کا چہرہ بہت برا  جس کا  لبا س برا اور جس کی بد بو بہت بری ہو تی ہے   اور وہ کہتا   ہے  کہ  تمہیں   بشا رت  ہو اس با ت کی جو تمہیں بہت  بری  لگے  یہ ہے تمہا را وہ دن جس کا تم سے وعدہ کیا جا تا تھا یہ پو چھتا ہے تم کو ن ہو  تمہا را چہرہ وہ چہرہ ہے جو برا ئی لا تا ہے  وہ جو ا ب دیتا ہے میں تمہا ر ا خبیث عمل ہوں   یہ کہتا ہے اللہ قیا مت قا ئم نہ کر نا ثالثا ۔عقلی طور پر یہ با ت محا ل بھی نہیں ہے کہ فر شتے قبروں میں مردوں سے سوال کر یں اور مردے ان کو جوا ب دیں اور پھر مردوں کو ان کے اعما ل کے مطا بق  پو را پورا بد لہ دیا جا ئےاللہ تعالیٰ ٰ کی عظیم قدرت اور کا ئنا ت میں اس کے عجا ئبا ت  اعتبا ر سے یہ کچھ بعید نہیں کہ مو منو ں ان کی قبروں   میں   نعمتوں  سے نوا ز ا جا ئے  اور کا فرو ں  کو عذا ب دیا جا ئے کہ جو بھی کا ئنا ت گہری نظر ڈا لے گا تو اسے معلو م ہو گا ۔کہ کا ئنا ت میں اس کی مشیت جا ری و نا فذہے اس کی قدرت جا مع اور کا مل ہے اس نے مخلو ق کو  نہا یت اعلی  تد بیر کے سا تھ  مستحکم وا ستوا ر کیا اور جس کو پیدا کیا  عجیب نرا لے اندا ز میں پیدا فر ما یا ان تما م امو ر پر غو ر کر نے سے نصو ص صحیح میں وارد مر دوں سے سوال اور پھر ان کے جوا ب  کے مطا بق  ان سے رحمت یا عذاب  کے مسئلہ  پر عقیدہ رکھنا آسا ن ہو جا ئےگا ان نصو ص سے ثا بت ہے  کہ دفن کے بعد اللہ تعالیٰ ٰ  مردے میں اس کی روح لو ٹا دیتا ہے تا کہ اسے وہ بر زخی  زند گی حا صل ہو جو دنیو ی زندگی  اور قیا مت  کے بعد کی آ خر وی  زند گی کے  درمیا ن ایک وا سطہ ہے ، دو  زند گیو ں کے  در میان کی یہ زندگی ہی انسا ن کو  اس قابل بنا تی ہے ۔کہ سوا ل سن سکے  اور اس کا  جو ا ب دے سکے  اور پھر  اس میں را حت  و نعمت  یا عذا ب و سزا  کا احسا س  بھی پیدا  کر تی ہے اس سلسلہ میں احا دیث پہلے بیا ن کی جا چکی ہے تد بیر و خلق کے اعتبا ر سے  اللہ تعالیٰ ٰ کے ایسے کما لا ت ہیں  کہ انسا نی عقلیں  اپنی کو تا ہی کی وجہ سے  ان کا احا طہ نہیں کر سکتیں  انہیں محا ل  سمجھتی ہیں  بلکہ انہیں ممکن سمجھتی ہیں   اگرچہ ان کے اسبا ب  و علل کے با رے میں حیرا ن ان کی  کنہ و حقیقت کے معلو م کر نے  اور ان کے مقصو د و مطلو ب کی معرفت  حا صل کر نے سے عا جز  دو رما  ند ہیں انسا ن جب کسی چیز سے عا جز آ جا ئے اور کو ئی معا ملہ اس سے مخفی رہے تو اسے چا ہیے کہ وہ اپنے آ پ کو  عا جز و قا صر  سمجھے  اور اللہ تعالیٰ ٰ  کے علم و حکمت  اور قدرت  پر شک نہ کر ے ،

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاوی بن باز رحمہ اللہ

جلددوم 

تبصرے