اس شخص کے لئے کیا حکم ہے کہ جوایسے شہر میں پروان چڑھا جہاں اسے صرف نماز یا زیادہ سے زیادہ ارکان خمسہ کا علم ہوسکااور ان کے مطابق عمل بھی کرتا ہے۔لیکن اس کے ساتھ وہ جنوں کے نام پر ذبح کرتا اور بوقت ضرورت انھیں پکارتا بھی ہے۔لیکن نہیں جانتا کہ اسلامی شریعت ن اس سے منع کیا ہے۔کیا وہ اپنی جہالت کی وجہ سے معذور ہے یا نہیں؟کیا حقیقت حال کرنے سے قبل اسے یہ کہا جاسکتا ہے کہ تو مشرک ہے؟
توحید کا علم رکھنے والے جس شخص کو اس کا حال معلوم ہو اس کا یہ فرض ہے کہ وہ اسے یہ بتائے کہ جن وغیرہ غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنا شرک اکبر ہے۔اس سے انسان دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔اس طرح ضرورتوں کے پورا کرنے کےلئے بھی جنوں کو پکارنا شرک اکبر ہے۔اور اس سے بھی انسان دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔کیونکہ یہ دونوں صورتیں عبادت کی ہیں لہذا ضروری ہے۔کہ یہ خالص اللہ ہی کے لئے ہوں غیر اللہ کو ان میں شری کرنا شرک اکبر ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ٰ ہے:
‘‘(اے پیغمبر!)آپ کہہ دیں کہ میری نماز اورمیری قربانی اورمیراجینااورمیرا مرنا،سب خالص اللہ ہی کے لئےہے جو سارے جہان کا مالک ہے اس کا کوئی شریک نہیں اورمجھ کو اسی بات کا حکم ملا ہے اورمیں سب سے پہلے فرمان بردارہوں۔’’
اورارشاد ربانی ہے:
‘‘اوراللہ کو چھوڑ کر ایسی چیز کی عبادت مت کرنا جو تمہاراکچھ بھلا کرسکے نہ کچھ بگاڑ سکے ،اگرایساکرو گے توظالموں میں سے ہوجاوگے۔’’اور اگر اللہ تم کو کوئی تکلیف پہنچائے تو اسکے سوا اس کا کوئی دور کرنے والا نہیں اور اگر تم سے بھلائی کرنی چاہے تو اس کے فضل کو کوئی روکنے والا نہیں۔''
اور فرمایا:
(اے محمدﷺ!)ہم نے آپ کو کوثر (خیر کثیر) عطا فرمائی ہے۔پس اپنے پروردیگار کےلئے نماز پڑھا کرو۔اور قربانی کیاکرو۔''
اور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا؛
''اللہ تعالیٰ ٰ اس شخص پر لعنت کرے جو غیر اللہ کے لئے ذبح کرے۔''
اگر ایسا شخص جنوں کے لئے ذبح کرنے اور ضرورتوں کے پورا کرنے کے لئے انہیں پکارنے پر اصرار کرنے تو وہ شرک اکبر کا مرتکب مشرک ہوگا۔کتاب وسنت کے دلائل کے بعد اس کا کوئی عذر قابل قبول نہ ہوگا اور اس کوشرک اکبر کا مرتکب کافر ومشرک کہا جائے گا۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب