کیا نبی کریمﷺ اپنی قبر شریف میں اس طرح زندہ ہیں کہ روح عنصری جسم وبدن میں موجود ہو اور آپ کی یہ زندگی دنیوی وحسی زندگی جیسی ہو؟یا آپ کی زندگی اعلیٰ علیین میں اخروی وبرزخی زندگی ہے۔ کہ جس میں انسان مکلف نہیں ہوتا۔جس طرح آپ نے وفات کے وقت فرمایا بھی تھا کہ (اللهم بالرفيق الاعليٰ)اور اب قبر میں آپ کا جسد منور بلا روح ہے۔جب کہ روح مبارک اعلیٰ علیین میں ہے۔اور روح پاک کا جسم اطہر کے ساتھ اتصال روزقیامت کوہوگا جس طرح کہ ارشاد باری تعالیٰ ٰ ہے۔﴿وَإِذَا النُّفوسُ زُوِّجَت ﴿٧﴾... سورة التكوير''اور جب روحیں(بدنوں سے) ملادی جایئں گی؟''
ہمارے نبی کریم حضرت محمد ﷺ کی قبر میں برزخی زندگی ہے۔اللہ تعالیٰ ٰ نے آپ کے لئے اپنی نعمتوں کی صورت میں آپ کے اعمال صالحہ کی جو پوری پوری جزاء عطا فرمائی ہے۔اس سے آپ مستفید ہوتے ہیں۔لیکن آپ کی روح مبارک جسم اطہر میں نہیں ہے۔ جس طرح دنیا میں تھی اور نہ ہی روح کا جسم اطہر سے اس طرح اتصال ہے۔جس طرح قیامت کے دن ہوگا۔بلکہ اس وقت آپﷺ کی زندگی برزخی زندگی ہے جو دنیوی زندگی اور اخروی زندگی کے درمیان کی ایک زندگی ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺوفات پاگئے تھے۔جس طرح آپﷺ سے پہلے سابقہ تمام انبیاء کرام علیہ السلام بھی فوت ہوگئے تھے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ ٰ نے فرمایا ہے:
''اور (اے پیغمبر!ﷺ)ہم نے آپ سے پہلے کسی آدمی کو بقائے دوام نہیں بخشا بھلا اگر آپ فوت ہوجایئں تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے۔''
اور فرمایا:
''جو (مخلوق) زمین پر ہے۔سب کو فنا ہونا ہے۔اور تمہارے پروردیگار ہی کی ذات (بابرکات) جو صاحب جلال و عظمت ہے باقی رہے گی۔
او ر فرمایا:
''(اے پیغمبر!ﷺ) آپ بھی فوت ہوجایئں گے اور وہ بھی فوت ہوجایئں گے۔''
مذکورہ بالا اس طرح کی دیگر آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ٰ نے آپﷺ کو فوت کردیا تھا۔ اور اسی وجہ سے آپﷺ کو صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین نے غسل دیا۔جنازہ(بصورت درود شریف) پڑھا۔اور آپ ﷺ کو روضہ اطہر میں دفن کردیا۔اگر آپ کی زندگی دنیاوی زندگی جیسی ہوتی تو آپﷺ کے ساتھ یہ معاملات نہ کئے جاتے۔جو فوت شدہ انسانوں کے لئے مخصوص ہیں۔ آپﷺ کی وفات کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ ٰ عنہا نے آپ کی وراثت کامطالبہ کیا کیونکہ ان کابھی یہی اعتقاد تھا کہ آپﷺ وفات پاگئے ہیں۔یہ اعتقاد رکھنے میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین میں سے کسی نے بھی آپ کی مخالفت نہیں کی ہاں البتہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ ٰ عنہ نے یہ جواب ضرور دیا کہ حضرات انبیاء کرامعلیہ السلام کی وراثت ان کے وارثوں میں تقسیم نہیں ہوتی۔آپﷺ کی وفات کے بعد حضرات صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین جمع ہوئے تاکہ آپ کے بعد آپ کے خلیفہ کا انتخاب کرلیں۔چنانچہ خلیفہ اول کے طور پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ ٰ عنہ کا انتخاب عمل میں آیا۔صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کی طرف سے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ ٰ عنہ کو خلیفہ منتخب کرنا گویا ان کا اس بات پر اجماع ہے۔کہ حضرت محمد ﷺ وفات پاچکے ہیں۔اگر آپ کی زندگی اب بھی دنیوی زندگی جیسی ہوتی تو حضرات صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ ٰ عنہ کو خلیفہ منتخب نہ کرتے۔
حضرت عثمان اور حضرت علی رضوان اللہ عنہم اجمعین کے دور میں اور اس سے پہلے اور اس سے بعد میں حضرات صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کوجن فتنوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ان مشکل حالات میں وہ کبھی بھی رسول اللہ ﷺ کی قبر شریف کی طرف نہیں گئے۔کہ آپ سے مشورہ کریں۔یا ان فتنوں سے مشکلات نکلنے کا طریقہ معلوم کریں۔اگر آپ کی زندگی دنیوی زندگی جیسی ہوتی توان حالات میں وہ آپﷺ سے ضرور مشورہ کرتے۔کیونکہ وہ اس بات کے شدید ضرورت مند تھے۔ کہ کوئی انہیں ان مشکل حالات سے نکلنے کی سبیل بتائے یا راہ سمجھائے۔!
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب