بہت سے مسلمان ملکوں میں ہم یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ قاریوں سے اجرت پر تلاوت کروائی جاتی ہے سوال یہ ہے کہ قاری کے لئے قراءت کی اجرت لیناجائز ہے؟کیا تلاوت کی اجرت دینے والا گناہگار ہوگا؟
قرآن مجید کی تلاوت خالص عبادت الٰہی اور تقرب الٰہی کے حصول کازریعہ ہے۔ تلاوت اور دیگر تمام عبادات کے لئے یہ ضروری ہے کہ انہیں مسلمان محض اللہ تعالیٰ ٰ کی رضا کےحصول کے لئے سر انجام دے اور اسی سے ثواب کوطلب کرے مخلوق سے اس کا بدلہ یا صلہ نہ چاہے یہی وجہ ہے کہ سلف صالح سے مردوں کےلئے یا محفلوں اور مجلسوں میں لوگوں سے اجرت لے کر قرآن پڑھانا ثابت نہیں ہے۔نہ آئمہ دین میں سے کسی سے ثابت ہے۔ کہ انھوں نے اس کا حکم یا اس کی اجازت دی ہو۔اور نہ ہی ائمہ کرام میں سے کسی سے یہ ثابت ہے کہ اس نے تلاوت قرآن کی اجرت لی ہو بلکہ وہ صرف اللہ تعالیٰ ٰ کی رضا کےلئےاور محض ا س سے حصول ثواب کےلئے تلاوت کیا کرتے تھے۔نبی کریمﷺ نے بھی یہی حکم دیا ہے۔کہ جو شخص قرآن پڑھے۔ وہ اللہ تعالیٰ ٰ سے مانگے لوگوں سے سوال کرنے سے آپﷺ نے منع فرمایا ہے۔سنن ترمذی میں حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ ٰ عنہ سے روایت ہے۔کہ ان کا گزر ایک قصہ گو کے پاس سے ہوا جو قرآن پڑھ کرسوال کررہا تھا آ پ نے ''اناللہ وانا الیہ راجعون'' پڑھا اور کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے:
’’جو شخص قرآن پڑھے تو وہ اللہ تعالیٰ ٰ ہی سے سوال کرے۔ عنقریب کچھ لوگ ایسے بھی آئیں گے جو قرآن پڑھ کرلوگوں سے سوال کریں گے۔''
باقی رہا قرآن کی تعلیم یا اس کے ساتھ دم کرکے اجرت لینا یا کوئی ایسا عمل جس کا نفع غیرقاری تک بھی پہنچے تو صحیح احادیث سے اس کا جواز ثابت ہے۔جیسا کہ حدیث ابو سعید میں ہے کہ ایک آدمی نے سورت فاتحہ کے ساتھ دم کرکے شفاءحاصل ہونے پر مریض سے بطور اجرت بکریوں کا ایک ریوڑ لیا تھا اور حدیث میں ہے کہ نبی کریمﷺ نے ایک آدمی کی ایک عورت سے شادی کےلئے مہر یہ مقر ر کیا کہ اسے جس قدر قرآن یاد ہے وہ عورت کوبھی یاد کرادے۔لیکن جو شخص نفس تلاوت پر اجرت لیتا ہے۔یا تلاوت کرنے والوں کی ایک جماعت کو اجرت پر بلاتا ہے تو وہ سلف صالح رحمۃ اللہ علیہ کے اجماع کے خلاف کرتا ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب