بحوث العلمیۃ والاافتاء کی فتویٰ کمیٹی کے سامنے یہ سوال آیا جسے وزارت داخلہ کے سیکرٹری کی طرف سے جناب عزت مآب ڈائرکٹر جنرل کی خدمت میں پیش کیا گیا تھا اور وہ یہ ہے:
(ع۔م۔ز) نامی ایک شخص نے منطقہ ریاض کے امیر سے اجازت طلب کی ہے کہ اسے بازار میں تعویزوں اور اور منتروں کے بیچنے کی اجازت دی جائے۔ کیونکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ادارے نے اس سے امیر کی طرف سے اجازت نامہ طلب کیاہے۔اور امیر نے تجویز پیش کی ہے۔ کہ اسے آپ کی طرف سے اجازت نامہ دیاجائے۔اور رخصت کے طالب سے یہ تسلی کرلی جائے۔ کہ وہ ان قواعد وضوابط کی پابندی کرے گا۔جو ہم وطنوں کو ناجائز نفع اندوزی سے بچاتے ہیں۔امید ہے کہ آپ اس سلسلہ میں ہمارے ساتھ اتفاق فرمایئں گے اور کاروبار کے شرائط پورا کرنے والے کو اجازت نامہ دینے کے امکانات پر غور فرمایئں گے۔؟
قبل ازیں بھی یہ فتویٰ صادر کیاجاچکا ہے۔کہ قرآن مجید یا اذکار نبویہ وغيره كو كاغذ يا پلیٹ پر لکھنا اور پھر پانی وغیرہ سے مٹا کر مریض کو پلانا تاکہ اسے بیماری سے شفا نصیب ہو منع ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ سے خلفاء راشدین سے یا حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین سے ایسا ثابت نہیں ہے۔ہمارے علم کی حد تک ان میں سے کسی نے ایسا نہیں کیا۔ہر طرح کی خیر وبھلائی رسول اللہﷺ خلفاء راشدین رضوان اللہ عنہم اجمعین اور صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کی پیروی میں ہے۔مذکورہ فتویٰ کی مکمل عبارت حسب زیل ہے۔
نبی کریمﷺ نے قرآن مجید اذکار اور دعائوں کے ساتھ دم کی اجازت دی ہے۔بشرط یہ کہ ازکار اور ادعیہ میں شرک نہ ہویا وہ ایسے کلام پر مشتمل نہ ہوں۔جن کا مفہوم واضح نہ ہو۔کیونکہ عوف بن مالک سے مروی ہے۔کہ ہم زمانہ جاہلیت میں دم کیا کرتے تھے اور اس بارے میں جب ہم نے رسول اللہﷺ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا:
(صحيح مسلم كتاب السلام باب لا باس بالرقي مالم يكن فيه شرك ح :2200)
''میرے سامنے اپنے دم پیش کرو دم میں کوئی حرج نہیں بشرط یہ کہ شرکیہ نہ ہو''
اس طرح کے دم کے بارے میں علماء کا اجماع ہے۔کہ یہ جائز ہے۔بشرط یہ کہ عقیدہ رکھا جائے کہ اس میں تاثیر صر ف اسی صورت میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ٰ پیدا فرمادے۔گردن یا جسم کے کسی دوسرے حصے کے ساتھ باندھنے والا تعویز اگر قرآن کے علاوہ کچھ اورہو تو حرام ہے بلکہ شرک ہے۔حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ ٰ عنہ سے مروی ہے کہ:
(سنن ابن ماجہ کتاب الطب باب تعلیق التمائم ح : 3531 مسند احمد 4/445)
''نبی کریمﷺ نے ایک شخص کے ہاتھ میں پیتل کا چھلہ دیکھا تو فرمایا یہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ یہ واہنہ (کمزوری )کی وجہ سے ہے۔آپﷺ نےفرمایا''اسے اُتار دے یہ تجھے کمزوری کے سوا اور کوئی فائدہ نہ دے گا۔اگر اس چھلے کو پہنے ہوئے تجھے موت آگئی تو تو کبھی نجات نہ پائےگا۔''
مسند احمد ہی کی ایک اور روایت میں ہے کہ:
''جس نے تعویز لٹکایا اس نے شرک کیا۔''
امام احمد اور ابو دائود نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ ٰ عنہ سے مروی یہ حدیث زکر کی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ:
''جھاڑ پھونک تعویز اور حب کے اعمال شرک ہیں۔''
خواہ جو اس نے لٹکایا ہو وہ قرآنی آیات ہی ہوں۔صحیح بات یہی ہے کہ قرآنی آیات کا لٹکانا ممنوع ہے۔اور اس کے تین اسباب ہیں:
1۔تعویز لٹکانے کی ممانعت کے بارے میں احادیث عام ہیں تخصیص کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
2۔سد زریعہ کے لئے ا س کی ممانعت ہے کیونکہ اس سے غیر قرآن لٹکانے کا راستہ کھلتا ہے۔
3۔لٹکائے جانے والے کلمات کی توہین ہوتی ہے۔کیونکہ آدمی انہیں قضائے حاجت استنجاء اور جنسی عمل کے وقت بھی اپنے ساتھ لٹکائے ہوتا ہے۔
قرآن مجید کی سورت یا آیات کا پلیٹ یا کاغذ پر لکھنا اور پھر اسے پانی یا زعفران وغیرہ کے ساتھ دھونا اور اسے برکت یا علمی استفادہ یا کسب مال یا صحت وعافیت وغیرہ کے حصول کی نیت سے پینا نبی ﷺ سے ثابت نہیں۔آپ نے خود کبھی اپنے لئے ایسا کیا نہ کسی دوسرے انسان کے لئے اور نہ آپ نے اس کے لئے صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین یا امت میں سے کسی کو اجازت دی حالانکہ اس وقت اس کےدواعی اور اسباب بھی موجود تھے۔ لہذا بہتر یہ ہے کہ اسے ترک کردیا جائے۔اور صرف اسی پر اکتفا ءکیا جائے۔جو شریعت میں ثابت ہے۔یعنی قرآن کریم اسماء حُسنیٰ اور رسول اللہﷺ سے ثابت ازکار اور دعایئں اور ایسے کلمات جن کے معنی واضح ہوں۔جن میں شرک کا شائبہ نہ ہو۔اور ایسے طریقے سے قرب الٰہی کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے۔جو اس نے خود مقرر فرمایا ہے۔تاکہ ثواب حاصل ہوسکے۔اللہ تعالیٰ ٰ پریشانیوں کو دور فرمادے۔غم وفکر سے نجات دےدے۔علم نافع سے سرفراز فرمائے۔ایک مسلمان کے لئے اللہ اور اس کے ر سول ﷺ کے مقرر کردہ طریقے ہی کافی ہیں۔اور جو شخص اللہ تعالیٰ ٰ کے احکام اور ارشادات کوکافی سمجھے تو وہ اسے غیر اللہ سے بے نیاز کردیتا ہے۔اللہ تعالیٰ ٰ ہی توفیق عطا فرمانے والا ہے۔
ان دلائل کی بنیاد پر اس شخص کو تعزیزوں اور منتروں کی فروخت کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔بلکہ اسے انکے فروخت کرنے سے منع کرنا چاہیے۔
والله اعلم بالصواب