السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص کے دل میں شیطان نے اللہ عزوجل کے بارے میں بہت زیادہ وسوسے پیدا کر دیے ہیں اور وہ اس کی وجہ بہت ڈرتا ہے خوف وہراس کا شکار رہتا ہے اس سلسلہ میں آپ کیا راہنمائی فرمائیں گے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
: سائل کے بارے میں جو یہ ذکر کیا گیا ہے کہ وہ شیطانی وسوسوں کے نتائج سے ڈرتا ہے، تو اس کے لیے یہ خوف وہراس نوید بشارت ہے کہ اس کے حق میں اس کے نتائج اچھے ہی ہوں گے دراصل ان وسوسوں کے ذریعے سے شیطان مومنوں پر حملہ آور ہوتا ہے تاکہ ان کے دلوں میں صحیح عقیدے کو خراب کر کے ان میں فساد وبگاڑ پیداکردے، اوراللہ کے بندوں کو نفسیاتی و فکری قلق واضطراب میں مبتلا کر دے تاکہ ان کا ایمان مکدر ہو جائے بلکہ اگر وہ سچے مومن ہیں تو ان کی زندگی ہی أجیرن کر دے۔
اہل ایمان کو پیش آنے والی یہ کوئی پہلی یا آخری بات نہیں ہے بلکہ جب تک دنیا میں کوئی مومن ہے، اس طرح کی باتیں پیش آتی رہیں گی۔ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی اس طرح کی باتوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے آپ سے پوچھا کہ ہم اپنے دلوں میں بعض ایسی باتیں پاتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی انہیں زبان پر لانا بھی بہت گراں سمجھتا ہے۔ آپ نے فرمایا:
((اَوَ قَدْ وَجَدْتُّمُوہُ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: ذَاکَ صَرِیْحُ الْاِیْمَانِ)) (صحیح مسلم، الایمان، باب بیان الوسوسۃ فی الایمان… ح: ۱۳۲۔)
’’کیا تم اس چیز کو (اپنے دلوں میں) پاتے ہو؟‘‘ انہوں نے کہا: ’’جی ہاں!‘‘ آپ نے فرمایا: ’’یہی ایمان صریح ہے۔‘‘
ایک دوسری روایت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«اَوَ قَدْ وَجَدْتُّمُوهُ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: ذَاکَ صَرِيْحُ الْاِيْمَانِ»(صحیح مسلم، الایمان، باب بیان الوسوسة فی الایمان… ح: ۱۳۲)
’’کیا تم اس چیز کو (اپنے دلوں میں) پاتے ہو؟‘‘ انہوں نے کہا: ’’جی ہاں!‘‘ آپ نےفرمایا: ’’یہی ایمان صریح ہے۔‘‘
ایک دوسری روایت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((یَأْتِی الشَّیْطَانُ اَحَدَکُمْ فَیَقُوْلُ مَنْ خَلَقَ کَذَا؟ مَنْ خَلَقَ کَذَا؟ حَتَّی یَقُوْلَ مَنْ خَلَقَ رَبَّکَ؟ فَاِذَا بَلَغَہٗ فَلْیَسْتَعِذْ بِاللّٰہِ وَلْیَنْتَہِ)) (صحیح البخاری، بدء الخلق، باب صفۃ ابلیس وجنودہ، ح: ۳۲۷۶ وصحیح مسلم، الایمان، باب بیان الوسوسۃ فی الایمان، ح: ۱۳۴۔)
’’تم میں سے کسی ایک کے پاس شیطان آکر کہتا ہے کہ (مخلوق کو) اس طرح کس نے پیدا کیا ہے؟ اس طرح کس نے پیدا کیا ؟ حتیٰ کہ وہ کہتا ہے کہ تیرے رب کو کس نے پیدا کیا؟ جب وہ یہاں تک پہنچ جائے تو اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگے اور رک جائے۔‘‘
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر ایک شخص نے عرض کیا: میرے دل میں ایسے خیالات آتے ہیں کہ انہیں زبان پر لانے سے مجھے یہ بات زیادہ پسند ہے کہ میں جل کر کوئلہ ہو جاؤں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ سن کر) فرمایا:
((اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی رَدَّکیدہُ اِلَی الْوَسْوَسَۃِ))( سنن ابي داؤد، الادب، باب فی رد الوسوسة، ح: ۵۱۱۲۔)
’’سب تعریف اس اللہ ہی کے لیے ہے جس نے اس کے معاملے کو وسوسہ کی طرف لوٹا دیا ۔‘‘
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کتاب الایمان میں تحریرفرماتے ہیں کہ مومن شیطانی وسوسوں میں مبتلا ہو جاتا ہے جو کفر یہ اندازکے وسوسے ہوتے ہیں جن سے اس کا سینہ تنگ ہو جاتا ہے، جیسا کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا تھا: یا رسول اللہ! ہم میں کسی ایک کے دل میں اگر ایسا خیال بھی آجاتا ہے کہ اسے زبان پر لانے کے بجائے اس کے نزدیک یہ باتکہیں زیادہ پسندیدہ ہوتی ہے کہ وہ آسمان سے زمین پر گر جائے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا:
((ذَاکَ صَرِیْحُ الْاِیْمَانِ)) (صحیح مسلم، الایمان، باب بیان الوسوسۃ فی الایمان… ح: ۱۳۲۔)
’’یہ تو خالص ایمان ہے۔‘‘
ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں: (صحابی نے عرض کیا کہ) وہ اسے زبان پر لانا بہت گراں محسوس کرتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((الحمد للہ الذی رد کیدہ الی الوسوسة)) ( سنن ابي داؤد، الادب، باب فی رد الوسوسة، ح: ۵۱۱۳۔)
’’سب تعریف اس اللہ ہی کے لیے ہے جس نے اس کے مکرو فریب کو وسوسہ کی طرف لوٹا دیا ہے۔‘‘
یعنی اس طرح کا وسوسہ بندے کی دلی کراہت وناپسندیدگی کے باوجودپیداہونا، پھراس کا اسے اپنے دل سے دور کرنے کی کوشش بھی کرتا خالص ایمان ہے۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے کسی مجاہد کے پاس کوئی دشمن آجائے اور وہ اسے دور ہٹاتے ہوئے اس پر غالب آجائے تو یہ عظیم جہاد ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے آگے فرمایا ہے: ’’یہی وجہ ہے کہ طالب علم اور عبادت گزار لوگوں کو ایسے وسوسے اور شبہات پیش آتے ہیں، جو دوسرے لوگوں کو پیش نہیں آتے کیونکہ دوسرے لوگ تو اللہ تعالیٰ کی شریعت اور اس کے راستے پر چلتے ہی نہیں بلکہ وہ تو اپنے رب سے غافل ہو کر خواہشات نفس کے پجاری بن جاتے ہیں اور یہی شیطان کا مطلوب و مقصود ہے، لیکن اس کے برعکس جو لوگ علم وعبادت کے ساتھ اپنے رب تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، دراصل شیطان ان کا دشمن ہے اور وہ انہیں اللہ تعالیٰ سے دور لے جانا چاہتا ہے۔‘‘[1]
میں اس سائل سے یہ بھی کہوں گا کہ جب تمہارے سامنے یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ وسوسے شیطانی ہیں، تو انہیں وقت وتوانائی صرف کرکے دور ہٹا دو اوران کے خلاف برسرپیکارہوجاؤ یہ تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکیں گے بشرطیکہ تم ان کے خلاف مجاہدہ کرتے رہو، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
-(ان اللہ تجاوز عن امتی ما وسوست بہ صدورہا ما لم تعمل او تتکلم)) (صحیح البخاري، العتق، باب الخطاء والنسیان فی العتاقة والطلاق، ح: ۲۵۲۸ وصحیح مسلم، ح: ۱۲۷۔)
’’بے شک اللہ تعالیٰ نے میری امت کے سینوں میں پیدا ہونے والے وسوسوں سے درگزر کا رویہ اختیارفرمایا ہے، جب تک وہ ان کے مطابق عمل نہ کرے یا ان کے مطابق بات نہ کرے۔‘‘
اگر آپ سے یہ کہا جائے کیا آپ اپنے دل میں آنے والے ان وسوسوں پر اعتقاد رکھتے ہیں؟ یا انہیں حق سمجھتے ہیں؟ کیا یہ ممکن ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی اس طرح صفت بیان کریں جس طرح آپ کے دل میں وسوسہ آتا ہے؟ تو آپ اس کا یہ جواب دیں کہ ہمیں اس طرح کی بات زبان پر لانا زیب نہیں دیتی، اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے اور یہ تو بہت بڑا بہتان ہے، آپ دل اور زبان سے اس کی تردید کریں، اس سے نفرت کرتے ہوئے لوگوں میں دور سے دور ترہو تے چلے جائیں اس بنیادپردل میں آنے والے یہ خیالات محض وسوسے ہیں اور شیطان کے جال ہیں، جو انسان کے جسم میں خون کی گردش کی طرح چلتا پھرتارہتاہے تاکہ تمہیں دین سے دور لے جائے اور دین کو تم پر خلط ملط کر دے۔ یہی وجہ ہے کہ معمولی اور حقیر باتوں کے بارے میں شیطان تمہارے دل میں شک وشبہ پیدا نہیں کرتا، مثلاً: تم ہمیشہ دنیا کے ان بڑے بڑے شہروں کے بارے میں سنتے رہتے ہو جو مشرق ومغرب کے ملکوں سے تعلق رکھتے ہیں اور جن کی آبادی بھی بہت زیادہ ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ انسانوں سے بھرے ہوئے ہیں، مگر ان شہروں کے وجود کے بارے میں تمہارے دل میں کبھی کوئی شک پیدا نہیں ہوا اور نہ کبھی دل میں یہ خیال آیا ہے کہ یہ تو ویرانے اور اجڑے ہوئے دیار ہیں، رہنے سہنے کے قابل ہی نہیں اور نہ ان میں کوئی رہ رہا ہے کیونکہ اس طرح کے کاموں میں تشکیک پیدا کرنے سے شیطان کو کوئی غرض نہیں، البتہ شیطان کی بڑی غرض یہ ضرور ہے کہ وہ مومن کے ایمان کو خراب کر دے۔ وہ اپنے سواروں اورپا پیادوں کے ساتھ مل کر کوشش کرتا ہے کہ مومن کے دل سے علم وہدایت کی روشنی کو بجھا دے اور اسے شک اور حیرت کی تاریکی میں مبتلا کر دے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے ایک مفید دوا کی نشان دہی فرما دی ہے جو موجب شفا ہے اور وہ یہ کہ آپ نے فرمایا ہے کہ وسوسے کی حالت میں انسان اعوذ باللّٰہ پڑھ لے اور وسوسے کو ترک کر دے۔ جب انسان وسوسے کو ترک کر کے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں لگا رہے تاکہ اس کی رضا اور اجر وثواب کو حاصل کر سکے تو اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے وسوسہ ختم ہو جائے گا۔ ان تمام خیالات کو اپنے دل سے جھٹک دیا کرو جبکہ تم اللہ کی عبادت کر رہے ہو، اس سے دعا کر رہے ہو اور اس کی عظمت و بزرگی کے گن گا رہے ہو۔ اگر تم کسی کو سن لو کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں وہ کچھ کہہ رہا ہے، جو تمہارے دل میں بصورت وسوسہ پیدا ہو رہا ہے، تو تمہارا بس چلے تو تم اسے قتل کر دو، تو اس سے بھی معلوم ہوا کہ تمہارے دل میں پیدا ہونے والی ان باتوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے، بلکہ یہ محض خیالات اور وسوسے ہیں، جن کی کوئی اصل نہیں جیسے کسی شخص نے اپنے کپڑوں کو دھویا ہو اور اس کا لباس پاک صاف ہو مگر اس کے دل میں بار بار یہ خیال آئے کہ شاید اس کا کپڑا پاک نہیں، شاید ایسے کپڑے میں نماز نہیں ہوتی تو اس صورت میں اس طرح کے وسوسوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دینی چاہیے۔ میری نصیحت کا خلاصہ حسب ذیل ہے:
٭ اس صورت میں اعوذ باللہ پڑھ لیا جائے اور دل میں آنے والے خیالات بالکل ترک کر دئیے جائیں جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا ہے۔
٭ عبادت اور عمل کو انہماک اور استغراق کے ساتھ، اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت بجا لاتے ہوئے اور اس کی رضا کے حصول کے لیے سر انجام دیا جائے۔
٭ انسان اگر مکمل توجہ، انہماک اور استغراق کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے گا تو ان شاء اللہ تعالیٰ یہ سارے وسوسے کافور ہو جائیں گے۔
٭ اللہ تعالیٰ سے کثرت کے ساتھ دعا اور التجا بھی کی جائے کہ وہ اپنے فضل و کرم کے ساتھ ان وسوسوں سے محفوظ رکھے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب
[1] صحیح البخاري ومسلم کتاب الایمان، ص: ۱۴۷ طبع ہندیہ۔