بحوث العلمية ولا افتاء كمیٹی کو سماحۃ الرئیس العام کی خدمت میں پیش کئ گئے اس استفتاء کے بارے میں علم ہو اجس میں یہ سوال پوچھا گیا ہے کہ حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ ٰ کے اس ارشاد کے کیا معنی ہیں کہ'' جب میں اپنے بندے سے محبت کرتا ہوں۔تو اس کا کان بھی بن جاتا ہوں۔جس سے وہ سنتا ہے۔اس کی آنکھ بن جاتا ہوں۔جس سے وہ دیکھتا ہے اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں۔ جس سے وہ پکڑتا ہے۔اور اس کا پائوں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے؟
جب مسلمان فرائض کو ادا کرے پھر تقرب الٰہی کے حصول کےلئے نفل عبادتوں کو بھی بجا لانے کی مقدور بھر کوشش کرتا رہے۔تو اللہ تعالیٰ ٰ اس سے محبت کرنے لگتا ہے۔اور ہر کام میں اس کا معاون بن جاتا ہے۔جب سنتا ہے تو سننے میں اسے اللہ کی مدد حاصل ہوتی ہے۔ اور وہ خیر ہی کی بات سنتا ہے۔حق ہی کو قبول کرتا ہے۔اور باطل اس سے دور ہوجاتا ہے۔ اور جب وہ اپنی آنکھ اور دل سے دیکھتا ہے۔ تو اللہ کے نور کے ساتھ ہی دیکھتا ہے۔ اور اس میں وہ اللہ کی تایئد وتوفیق کے ساتھ ہدایت وبصیرت پر ہوتا ہے۔اور وہ حق کو حق اور باطل کو باطل پردیکھتا ہے۔جب کسی چیز کو پکڑتا ہے۔تو اللہ تعالیٰ ٰ کی عطا کردہ قوت کے ساتھ پکڑتا ہے۔ اور اس کی یہ پکڑ حق کی حمایت کے لئے ہوتی ہے۔ اور جب وہ چلتا ہے تو اس کی یہ چال اللہ تعالیٰ ٰ کی اطاعت طلب علم یا اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے ہوتی ہے۔مختصر یہ ہے کہ اس کا اپنے ظاہری وباطنی اعضاء کےساتھ عمل اللہ کی ہدایت وقوت کا رہین منت ہوتا ہے۔
اس سے واضح ہے کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ ٰ مخلوق میں حلول کرجاتا ہے۔ یا اپنی مخلوق میں سے کسی کے ساتھ متحد ہوجاتا ہے۔مذید رہنمائی ان کلمات سے ملتی ہے جو اس حدیث کے آخر میں آئے ہیں:
''اگر میرا بندہ مجھ سے سوال کرے تو میں اسے ضرور دے دیتا ہوں اور اگر میرے ساتھ پنا ہ چاہے تو میں اسے ضرور پناہ دے دیتا ہوں۔''
بعض روایات میں جو یہ الفاظ آتے ہیں۔؛
'' وہ میرے ساتھ سنتا اور میرے ساتھ دیکھتا ہے۔''
تو اس میں حدیث کے ابتدائی حصہ سے جو مراد ہے اس کی وضاحت اور تصریح ہے۔کہ سائل کون ہے اور مسئول کون مستعیذ(پناہ مانگنے والا) کون ہے اور معیذ(پناہ دینے والا)کون ہے۔یہ حدیث قدسی ایک دوسری حدیث قدسی کی نظیر ہے جس میں اللہ تعالیٰ ٰ فرماتا ہے۔:
مرضت فلم تعدني الخ...(مسند احمد ٢/٤-٤)
''میرے بندے میں بیمارہوا لیکن تو نے میری بیمار پرسی نہ کی۔''الخ!
ان دونوں حدیثوں میں آخری حصہ ابتدائی حصے کی خود ہی شرح کرتا ہے۔لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ خواہشات کے پجاری متشابہ نصوص کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔محکم سے اعراض کرتے ہیں۔اور اس طرح سے یہ سیدھے راستے سے بھٹک جاتے ہیں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب