السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
’’کہانت‘‘ کسے کہتے ہیں اور کاہنوں کے پاس(فریادیں لے کر) جانے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کہانت(کہانۃ: فعالۃ) کے وزن پر (تَکَہَّنَ) فعل سے ماخوذ ہے، اس کے معنی اندازہ لگانے(تکہ بازی اور اٹکل بازی) نیز ایسے امور کے ذریعے سے حقیقت تلاش کرنے کے ہیں جن کی کوئی اساس نہ ہو۔ زمانہ جاہلیت میں کچھ لوگوں نے اسے کاروبار کے طور پر اختیار کر لیا تھا اور ان کا ان شیطانوں سے رابطہ تھا جو آسمان سے چوری چھپے باتیں سن کر ان لوگوں سے آکر بیان کر دیتے تھے پھر وہ شیطانوں سے سنی ہوئی اس طرح کی باتوں میں اپنی طرف سے سو سو اضافے کر نے کا عمل انجام دیتے تھے اور اس کولوگوں سے بیان کرتے اب ان سیکڑوں باتوں میں سے اگر کوئی ایک بات صحیح ثابت ہو جاتی تو لوگ ان کے بارے میں فریب میں مبتلا ہو جاتے اور اپنے باہمی فیصلوں کے لیے بھی انہی کی طرف رجوع کرتے اور مستقبل کے حالات و واقعات میں بھی ان سے راہنمائی طلب کرتے، اس لیے ہم کہتے ہیں کہ کاہن وہ ہے جو مستقبل کی غیب کی باتوں کی خبر دے۔ کاہنوں کے پاس جانے والے لوگوں کی حسب ذیل تین قسمیں ہیں:
پہلی قسم: کاہن کے پاس جا کر اس سے سوال تو کرے مگر اس کی بات کی تصدیق نہ کرے تو یہ بھی حرام ہے اور ایسا کرنے والے کی سزا یہ ہے کہ اس کی چالیس دن تک نماز قبول نہیں ہوتی، جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((مَنْ اَتٰی عَرَّافًا فَسَاَلَه عَنْ شَیْئٍ لَمْ تُقْبَلْ لَه صَلٰوةَُ اَرْبَعِینَ لَیْلَةَُ)) (صحیح مسلم، السلام، باب تحریم الکهانة واتیان الکهان، ح:۲۲۳۰۔)
’’جو شخص کسی کاہن کے پاس جا کر اس سے کسی چیز کے بارے میں سوال کرے، تو اس کی چالیس راتوں تک نماز قبول نہیں ہوتی۔‘‘
دوسری قسم: کاہن کے پاس جا کر اس سے سوال کرے اور پھر اس کی تصدیق بھی کرے، تو یہ اللہ عزوجل کی ذات پاک کے ساتھ کفر ہے کیونکہ اس نے کاہن کے دعوائے علم غیب کی تصدیق کی ہے اور جو شخص کسی کے دعوائے علم غیب کی تصدیق کرے، تو وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تکذیب کا مرتکب قرارپائے گا جس میں ارشادباری تعالیٰ ہے:
﴿قُل لا يَعلَمُ مَن فِى السَّمـوتِ وَالأَرضِ الغَيبَ إِلَّا اللَّهُ...﴿٦٥﴾... سورة النمل
’’کہہ دو کہ جو آسمانوں اور زمین میں ہیں‘ اللہ کے سوا غیب کی باتیں نہیں جانتے۔‘‘
اسی لیے صحیح حدیث میں آیا ہے:
«مَنْ أَ تٰی کَاهِنًا فَصَدَّقَهُ بِمَا يَقُولُ فَقَدْ کَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلَی مُحَمَّدٍ»(جامع الترمذی، الطهارة، باب ماجاء فی کراهیة اتیان الحائض، ح: ۱۳۵، وسنن ابن ماجه، الطهارة، باب النهی عن اتیان الحائض، ح: ۶۳۹ وصححه الالبانی رحمه الله فی الارواء، ح:۲۰۰۶)
’’جو شخص کسی کاہن کے پاس جائے او ر جو کچھ وہ کہے اس کی تصدیق کرے، تو اس نے اس دین کے ساتھ کفرکا ارتکاب کیا جسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا ہے۔‘‘
یہ ہے کہ کوئی شخص کاہن کے پاس جائے اور اس سے اس لیے سوال کرے تاکہ لوگوں کے سامنے اس کے حال کو بیان کرکے ان کے مکر وفریب کا پردہ فاش کر سکے اور انہیں بتائے کہ یہ کہانت، ملمع سازی اور سراسر گمراہی ہے، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب ابن صیاد آیا تو آپ نے اپنے دل میں ایک بات کو چھپایا اور پھر اس سے پوچھا کہ وہ یہ بتائے کہ آپ نے اپنے دل میں کس بات کو چھپایا ہے؟ اس نے جواب دیا: ’’الدُخُّ‘‘ اور اس کا اس سے ارادہ سورۃ الدخان کا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر اس سے فرمایا:
((اِخْسَأْ فَلَنْ تَعْدُوْا قَدْرَکَ)) (صحیح البخاري، الجنائز، باب اذا اسلم الصبی فمات، ہل یصلی علیہ؟… ح: ۱۳۵۴ وصحیح مسلم، الفتن، باب ذکر ابن صیاد، ح:۲۹۲۴۔)
’’جاتو ذلیل و رسوا ہو جا، تو اپنی حیثیت سے ہرگزہرگز تجاوز نہیں کر سکے گا۔‘‘
خلاصہ کلام یہ ہے کہ کاہن کے پاس جانے والوں کے درج ذیل تین حالات ہیں:
۱۔ اس کے پاس جائے، اس سے سوال کرے لیکن اس کی تصدیق نہ کرے اور نہ اس کا مقصود اس کا حال بیان کرنا ہو، تو یہ حرام ہے اور ایسا کرنے والے کی سزا یہ ہے کہ اس کی چالیس دنوں تک نماز قبول نہیں ہوتی۔
۲۔ اس سے سوال کرے اور اس کی تصدیق بھی کرے تو یہ اللہ عزوجل کے ساتھ کفر ہے، انسان کو اس سے توبہ کر کے اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے، ورنہ اس کی موت کفر پر ہوگی۔
۳۔ کاہن کے پاس جا کر اس لیے سوال کرے تاکہ اس کا امتحان لے پھرلوگوں کے سامنے اس کا حال بیان کرکے اس کا پردہ فاش کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب