جولوگ زنا قذف(تہمت) یا چوری جیسے کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کریں۔اور احکام شریعت کے مطابق انہیں دنیا میں ان جرائم کی سزا نہ دی جاسکے۔اور وہ توبہ کئے بغیر مرجایئں تو قیامت کے دن ایسے لوگوں کے بارے میں حکم الٰہی کیا ہوگا؟
اہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے۔ کہ اگر کوئی مسلمان زنا قذف۔(تہمت) اور چوری جیسے کبیرہ گناہوں پر اصرار کی حالت میں مرجائے تو اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ ٰ اپنی مشیت کے مطابق معاملہ کرے گا۔اگراللہ تعالیٰ ٰ چاہے تو اسے معاف فرمادے۔ اور اگرچاہے تو اسے عذاب دے۔اور بالاخر اس کا انجام جنت ہوگا۔ارشاد باری تعالیٰ ٰ ہے:
یقینا اللہ تعالیٰ ٰ یہ(جرم)نہیں مخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک ٹھہرایا اور اس کے سوا جو گناہ وہ جس کو چاہے،معاف کر دے گا۔
صحیح اور متواتر احادیث سے یہ ثابت ہے کہ گناہ گار موحدین کو جہنم سے نکال لیا جائے گا۔حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ ٰ عنہ سے مروی ہے۔کہ ہم نبی کریمﷺ کے پاس تھے۔تو آپ نے فرمایا:
صحیح البخاری ۔کتاب الایمان باب رقم :11ح 18 ۔3892،3893۔3999۔4894)
''کیا میری اس بات پر بیعت کرتے ہو کہ اللہ تعالیٰ ٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو گے۔بدکاری نہ کروگے۔چوری نہ کرو گے۔''
پھر آپ نے سورۃ نساء کی مذکورہ آیت بالا آیت کریمہ تلاوت کی اور فرمایا:
''جو تم میں سے اس بعیت کو پورا کرے گا۔ تو اس کا اجر اللہ تعالیٰ ٰ کے زمہ ہے۔جوشخص ان میں سے کسی گناہ کا ارتکاب کرے۔اور اسے سزا مل جائے۔تو وہ سزا اس کے لئے کفارہ بن جائے گی۔اورجس دن ان میں سے کسی گناہ کا ارتکاب کیا اور اللہ تعالیٰ ٰ نے اس کی پردہ پوشی کی تو وہ اللہ کے سپرد ہے۔اگر چاہے تو عذاب دے اورچاہے تو اسے معاف فرمادے۔''
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب