سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(89) عید الام اور سالگرہ منانے کا حکم

  • 830
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1195

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

’’عید الام‘‘ کے نام سے منائی جانے والی عید کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

تمام عیدیں جو شرعی عیدوں کے مخالف ہیں وہ سب بدعی اور نو ایجاد ہیں، جو کہ سلف صالحین کے عہد میں معروف نہ تھیں۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ ان میں سے کچھ عیدیں غیر مسلموں کی ایجاد ہوں، پھر ان میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے دشمنوں کے ساتھ مشابہت بھی موجود ہے جبکہ شرعی عیدیں اہل اسلام کے نزدیک مشہور ومعروف ہیں اور وہ ہیں: (۱)عیدالفطر (۲) عیدالاضحی اور (۳)ہفت روزہ عید یعنی جمعۃ المبارک۔ ان تین عیدوں کے سوا اسلام میں کسی اور عید کا کوئی تصور نہیں، لہٰذا ان کے علاوہ جو عیدیں بھی ایجاد کی گئی ہیں وہ سب مردود اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی شریعت میں باطل ہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

«مَنْ اَحْدَثَ فِی اَمْرِنَا هٰذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ»(صحیح البخاري، کتاب العلم، باب اذا اصطلحوا علی صلح جور فالصلح مردود، ح:۲۶۹۷ وصحیح مسلم، الاقضیة، باب نقض الاحکام الباطلة، ح:۱۷۱۸)

’’جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہ ہو تو وہ مردود ہے۔‘‘

یعنی اسے اس کے منہ پر دے مارا جائے گا اور اللہ کے ہاں وہ مقبول نہ ہوگی۔ ایک روایت میں الفاظ یہ ہیں:

«مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ اَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ»(صحیح مسلم، الاقضية باب نقض الاحکام الباطلة ح:۱۷۱۸)

’’جس شخص نے کوئی ایسا عمل کیا جس کے بارے میں ہمارا امر نہ ہو تو وہ مردود ہے۔‘‘

جب یہ بات واضح ہوگئی تو اس سے معلوم ہوا کہ سوال میں مذکور اور ’’عیدالام‘‘ (ماں کی عید) کے نام سے موسوم عید جائز نہیں ہے، لہٰذا اس میں عید جیسے شعائر، مثلاً: خوشی ومسرت کا اظہار اور تحائف وغیرہ دینا جائز نہیں۔ مسلمان کے لیے واجب ہے کہ وہ اپنے دین کو عزت کا ذریعہ سمجھے، اسی کو باعث فخر جانے، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مقرر کردہ حدود کی پابندی کرے اور اس دین قیم سے وابستہ ہو جائے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے پسند فرمایا ہے، اس میں اپنی طرف سے کوئی کمی بیشی نہ کرے۔ مسلمان کو یہ بھی چاہیے کہ وہ اندھا مقلد بن کر ہر کس وناکس کے پیچھے نہ چلے بلکہ اسے چاہیے کہ وہ اپنی شخصیت کو اللہ تعالیٰ کی شریعت کے تقاضے کے مطابق مضبوط بنائے تاکہ وہ لوگوں کا متبوع بنے ان کا تابع نہ بنے۔ لوگوں کے لیے نمونہ بنے، ان کو اپنے لیے نمونہ نہ بنائے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی شریعت تمام اعتبار سے جامع ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى وَرَضيتُ لَكُمُ الإِسلـمَ دينًا...﴿٣﴾... سورة المائدة

’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کیا ہے۔‘‘

ماں کا اس سے کہیں زیادہ حق ہے کہ سال میں صرف ایک دن اس کے نام کیا جائے بلکہ ماں کا اپنی اولاد پر حق تو ہے کہ وہ اس کا پورا پورا خیال رکھیں اس کا ادب واحترام بجا لائیں، اس کی ضروریات کو پورا کریں اور ہر جگہ اور ہر وقت اس کی اطاعت وفرمانبرداری اپنا شیوہ بنالیں بشرطیکہ اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی لازم نہ آتی ہو۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

 

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ164

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ