اللہ تعالیٰ ٰ کی ذات گرامی پر توکل کے یہ معنی نہیں کہ تیرا کی جانے بغیر آپ سوئمنگ پول میں چھلانک لگادیں یا مشق کئے بغیر کسی گیم میں حصہ لے کر اپنے آپ کو خطرہ میں ڈال دیں۔تو پھر سوال یہ ہے کہ توکل کی حقیقت کیا ہے۔؟اُمید ہے مستفید فرما کر شکریہ کا موقعہ بخشیں گے!
توکل علی اللہ کا معنی یہ ہے کہ کام کو اللہ تعالیٰ ٰ وعدہ کے سپرد کردیا جائے۔بلکہ یہ واجب ہی نہیں بلکہ ایمان کا ایک اہم اصول ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ٰ ہے:
''اوراللہ پر ہی توکل رکھو بشرط یہ کہ صاحب ایمان ہو''
مطلوب ومقصود کے حصول کے لئے توکل ایک طاقتور معنوی سبب ہے لیکن مومن کوچاہیے کہ وہ اس کے ساتھ ساتھ دیگر ممکن اسباب کوبھی اختیار کرے خواہ ان کا تعلق عبادات سے ہو مثلا دعاء نماز صدقہ اور صلہ رحمی وغیرہ یا ان کا تعلق مادیات سے ہو کہ قوانین فطرت کے مطابق اللہ تعالیٰ ٰ نے ان اسباب کو مسببات کے ساتھ ملا دیا ہے۔جیسا کہ ان مثالوں سے واضح ہوتا ہے۔جنھیں سائل نے اپنےاستفتاء میں ذکر کیا ہے۔رسول اللہ ﷺ کی اقتداء کابھی یہی تقاضا ہے۔کہ آپ سب سے بہترین متوکل تھے۔اور آپ اللہ تعالیٰ ٰ کی ذات گرامی پر کمال درجے کے توکل کے ساتھ ساتھ دیگر مناسب اسباب کو بھی اختیار فرمایا کرتے تھے۔پس جو شخص دستیابی کے باوجود دیگر اسباب کو ترک کردے۔اور محض توکل پر اکتفاء کرے تو اس کا یہ عمل رسول اللہﷺ کی سنت کے مخالف ہے۔اور اس کے عمل کو شرعی توکل کی بجائے عاجزی یاکم ہستی کہا جائے گا۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب