نبی کریمﷺ کے اس ارشاد میں امت سے کیامراد ہے۔جس میں آپ یہ فرماتے ہیں۔کہ ''ایک کے سوا میری ا ُمت کے تمام فرقے جہنم رسید ہوں گے۔'' تو کیا یہ بہتر فرقے مشرکوں کی طرح ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے یا نہیں؟اور جب ہم ''نبی کی اُمت'' کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔تو کیا اس سے مراد آپﷺ کے فرمانبردار اور نافرمان سب مراہوتے ہیں۔ یا اس سے صرف آپ کے فرمانبردار مراد ہوتے ہیں؟
اس حدیث میں اُمت سے مراد امت اجابت ہے۔اوریہ امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوجائےگی۔اس میں بہتر فرقے منحرف اور بدعتی تو ہوں گے۔لیکن ملت اسلام سے خارج نہیں ہوں گے۔بدعت اور انحراف کے باعث انہیں عذاب ہوگا۔الا یہ کہ کسی کو اللہ تعالیٰ ٰ معاف فرماد ے اور اسے جنت میں پہنچادے۔صرف اہل سنت وجماعت کا ایک فرقہ نجات یافتہ ہے۔اور اس سے مراد وہ لوگ ہیں۔جنھوں نے نبی کریمﷺ کی سنت کے مطابق عمل کیا۔اور آپ کے اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے طریقے کو اختیار کیا۔چنانچہ انہی کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا تھا۔
''میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم اور غالب رہے گا۔اس کی مخالفت کرنے والے اور اس رسوا کرنے والے اسے نقصان نہ پہنچاسکیں گے۔حتیٰ کہ اللہ کا امر(قیامت) آجائےگا۔''
جوشخص اپنی بدعت کےباعث دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے۔تو اس کا تعلق امت دعوت سے ہے امت اجابت سے نہیں۔اور وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنمی ہوگا۔اور اس مسئلہ میں راحج قول یہی ہے۔ایک قول یہی ہے کہ اس حدیث میں امت سے مراد امت دعوت ہے۔اور اس میں وہ تمام افراد شامل ہیں۔جن کیطرف نبی کریمﷺکو مبعوث فرمایا گیا۔خواہ وہ مومن ہو یا کافر اور ایک گروہ سے مراد جہنم سے نجات پانے والی امت ہے۔خواہ عذاب سے اس کا سابقہ پڑے یا نہ پڑے اس کا انجام بہرحال جنت ہے۔
فرقہ ناجیہ کے علاوہ دیگر بہتر فرقے کافر اور ابدی جہنمی ہیں۔اس سے بھی معلوم ہوا کہ اُمت دعوت امت اجابت کی نسبت عام ہے۔یعنی جو شخص امت اجابت سے تعلق رکھتا ہے۔وہ امت دعوت میں سے بھی ہے۔لیکن امت دعوت کا ہر فرد امت اجابت میں سے نہیں ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب