سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(285) دعائوں کے پڑھنے میں مسنون انداز اختیار کرنا جاہے

  • 8254
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1328

سوال

(285) دعائوں کے پڑھنے میں مسنون انداز اختیار کرنا جاہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض دوست جب سفر پر یا عمرہ کے لیے جاتے ہیں تو روزانہ صبح شام کسی ایک یا بعض افراد کو صبح و شام کے مسنون اذکار پڑھنے کو کہتے ہیں باقی سب لوگ سنتے رہتے ہیں (خود نہیں پڑھتے) اس کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جناب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  صبح شام کچھ خاص اذکار کے ساتھ اللہ کو یاد کرتے اور خاص دعائیں پڑھتے تھے۔ صحابہ کرام  صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ دعائیں سن کر یاد کرلیں وہ بھی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   کی پیروی کرتے ہوئے انفرادی طور پر یہ اذکار اور دعائیں پڑھنے لگے۔ جہاں تک ہمیں علم ہے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  یا صحابہ کرام  صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا کوئی طریقہ مروی نہیں کہ وہ مل کر یہ دعائیں اور اذکار پڑھتے ہوں یا اکٹھے پڑھتے ہوں یا ایک پڑھتاہو اور باقی خاموشی سے سنتے ہوں۔ مسلمانوں کو چاہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے اور اس دعا کرنے کی کیفیت میں اور تمام شرعی امور میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر عمل کریں ۔ بھلائی تمام تر ان ی اتباع ہی میں ہے اور ہر قسم کا شران کی مخالفت میں۔ لہٰذا ذکر دعا کے لیے جمع ہونا یا سے ایک طریقہ اور عادت بنالیتا بدعت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

((مَنْ أَحّدَثَ فِی أَمْرِنَا ہٰذَا مَالَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ))

’’ جس نے ہمارے دین میں وہ چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں تو وہ ناقابل قبول ہے۔ ‘‘

((إِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ اْالُٔامُورِ فَإِنَّ کُلَّ مُحْدَثَة وَکُلَّ بِدْعَة ضََلَالَة))

’’نئے ایجا ہونے والے کاموں سے بچو، ہر نیا کام بدعت اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘

ابن عمر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  صبح اورشام کے وقت ان کلمات کو ترک نہیں فرماتے تھے:

((اَللّٰھُمَّ إِنَّی أَسْأَلُکَ الْعَافِیَة فِی دِیْنِی وَدُنْیَایَ وَأَھْلِی وَمَالِی، اَللّٰھُمَّ اسْتُرْعَوْرَاتِی وَآمِنْ رَوْعَاتِی وَاحْفَظْنِی مِنْ بَیْنِ یَدَیَّ وَمِنْ خَلْفِی وَعَنْ یَمِیْنبی وَعَنْ شِمَالِی وَمِنْ فَوْقِی وَأَعُوذُ بَعَظْمَتِکَ أَنْ أُغْتَالَ مِنْ تَحْتِی))

’’ اے اللہ ! میں تجھ سے دین ، دنیا اور اہل اور مال میں عافیت ک سوال کرتاہوں۔ اے اللہ ! میری پردہ پوشی فرما اور پریشانیوں سے امن دے اور میرے حفاظت فرما میرے اگے ، پیچھے ، دائیں بائیں  اور اوپر کی جانب سے اور تیری عظمت کی پناہ میں آتا ہوں اس بات سے کہ مجھے نیچے سے اچانک پکڑ لیا جائے۔ (یعنی زمین میں دھنس جانے سے تیری پناہ میں اتا ہوں )۔‘‘

یہ حدیث امام نسائی اور امام ابن ماجہ نے روایت کی ہے اور امام حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب صبح ہوتی تو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے:

((اللّٰھُمَّ بِکَ أَصْبَحْنَا وَبِکَ أَمْسَیْنَا وَبِکَ نَحْیَا وَبِکَ نَمُوتُ وَإِلَیْکَ النُّشُورُ))

’’ اے اللہ ہم نے تیری توفیق سے صبح کی اور تیری توفیق سے شام کی اور تیرے حکم سے زندہ ہیں اور تیرے حکم سے مریں گے اور تیری طرف ہی اٹھ کر جانا ہے۔‘‘

شام کو یہی الفاظ فرماتے لیکن والیک النشور کی بجائے الیک المصیر (تیر ی ہی طرف واپسی ہے ) فرماتے۔ یہ حدیث ابوداؤد، نسائی ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کی ہے۔[1]

وَبِاللّٰہِ التَّوفَیقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِهِ وَصَحبِهِ وَسَلَّمَ

 اللجنۃ الدائمۃ ، رکن : عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان ، نائب صدر : عبدالرزاق عفیفی، صدر : عبدالعزیز بن باز۔


[1]              مسند احمد ۲؍۲۵، ابوداؤد حدیث: ۵۰۶۸۔ نسائی ۸؍۲۸۷، ابن حبان حدیث: ۲۴۵۶۔ مستدرک حاکم ۱؍۵۱۷

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلددوم -صفحہ 321

محدث فتویٰ

تبصرے