السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
برائے مہربانی مندرجہ ذیل دو حدیثوں کی وضاحت فرما دیجئے:
((مَنْ أَحّدَثَ فِی أَمْرِنَا ہٰذَا مَالَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ))
’’ جس نے ہمارے اس دین میں ایسی چیز ایجاد کیجو اس میں سے میں سے نہیں وہ (چیز)ناقابل قبول ہے۔‘‘
اور
(( مَنْ سَنَّ سُنَّة حَسَنَة فَلَہٗ أَجْرُہَا وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِہَا ))
’’ جس نے اچھا جاری کیا، اسے اس کا ثواب ملے گا او اس پر عمل کرنے والوں کا بھی ثواب ملے گا۔‘‘
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
’’ من احدث…‘‘ والی حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص دین میں کوئی بدعت جاری کرتا ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی شریعت کے مشابہ ایک چیز پیش کرتا ہے تو یہ نئی چیز غیر شرعی ہوگی ، اس پر عمل نہیں کیا جائے گا، اسے ایجاد کرنے والا گناہ گار ہوگا۔ اس کی ایک مثال تو وہی ہے ہو سوال میں ذکر کی گئی یعنی پنچگانہ نمازوں میں فرض نماز کے بعد بلند آواز سے آیت الکرسی پڑھنا۔ دوسری مثالیں اذان میں اَشْھَدُ اَنَّ عَلِیَّا وَلِیُّ اللّٰہِ کہنا۔ اذان کے بعد مؤذن کا بلند آواز سے دورد پڑھنا ۔ البتہ اگر مؤذن آہستہ دورد پڑھے تو یہ سنت ہے۔
دوسری حدیث: مَنْ سَنَّ فِی الْاسْلَامِ سُنَّة حَسَنَة…‘‘ الخ کا مطلب یہہے کہ جو شخص ایسی سنت پر عمل کرتا ہے جس پو لوگوں نے عمل کرنا چھوڑ دیا تھا، اس نے اسے زندہ کر دیا کیونکہ اس کی وجہ سے بہت سے لوگ اس پر عمل کرنے لگے۔ اسی طرح وہ وعظ ونصیحت کے ذریعے ایک سنت کی طر ف توجہ دلاتا ہے اور لوگ اس پر عمل کرنے لگتے ہیں۔ اس مسئلہ کی تائید صحیح مسلم کی اس حدیث سے ہوتی ہے۔ جو عبداللہ بن عمر او رجریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے۔ انہوں نے فرمایا: ’’ ہم صبح کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ کچھ افراد حاضر خدمت ہوئے ان کے پاس کپڑے نہیں تھے، صرف ایک ایک چادر سے جسم چھپایا ہوا تھا اور گلے میں تلواریں لٹکائی ہوئی تھیں، انمیں اسے اکثر مضر قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے بلکہ سبھی مضر سے تھے ۔ رسول اللہ نے ان کا فقروفاقہ ملاحظہ فرمایا تو چہرہ اقدس کارنگ بدل گیا۔ کہی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی اور (نماز کے بعد ) خطاب فرماتے ہوئے یہ آیت پڑھی:
﴿یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَ بَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّ نِسَآئً وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآئَ لُوْنَ بِہٖ وَ الْاَرْحَامَ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا ﴾
’’ اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا ور اسی اسے اس کی بیوی کو پیدا کرکے ان دونوں سے بہت مرد اور عورتیں پھیلادیں اللہ سے ڈرو جسکے نام پر ایک دوسرے سے مانگتے ہو اوررشتے ناطے توڑنے سے بھی بچو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ تم پر نگران ہے۔‘‘ (النساء: ۴/۱)
دوسری آیت سورت حشر سے پڑھی:
﴿یٰٓاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوا اللّٰہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ﴾
’’ اے مومنو! اللہ سے ڈرو اور ہر جان دیکھے کہ اس نے کل (قیامت) کے دن کے لیے آگے کیا بھیجا ہے۔ ‘‘ (الحشر :۵۹/۱۸)
(پھر فرمایا: )’’ آدمی صدقہ کر ے اپنے دینار سے ، اپنے درہم سے اپنے کپڑے سے اپنے گیہوں کے صاع سے، اپنے کھجور کے صاع سے ‘‘ حتی کہ یہ بھی فرمایا: ’’ خواہ آدھی کجھور ہو‘‘ ایک نصاری صحابی تھیلی لائے ، ان کا ہاتھ گویا اس کو اٹھانے سے عاجز ہورہا تھا۔ (اتنی بھاری تھی کہ ہاتھ سے چھوٹ رہی تھی ) بلکہ واقعی عاجز ہوگیا۔ اس کے بعد تو لوگ آگے پیچھے (صدقہ لے لے کر ) آنے لگے، حتی کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ اقدس یوں چمک گوہا اس پر سونے کا رنگ پھر ا ہوا ہے تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
((مَنْ سَنَّ فِی الْإِسْلَامِ سُنَّة حَسَنَة فَلَہٗ أَجْرُہَا وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِہَا بَعْدَہٗ مِنْ غَیْرِ أَنْ یَّنْقُصَ مِنْ أُجُورِہِمْ شَیْئٌ وَمَنْ سَنَّ فِی الْإِسْلَامِ سُنَّة سَیِّئَة کَانَ عَلَیْہِ وِزْرُہَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِہَا مِنْ بَعْدِہٖ مِنْ غَیْرِ أَنْ یَّنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِہِمْ شَیْئٌ))
’’ جوشخص اسلام میں اچھا طرقہ جاری کرے اسے اس کا ثواب ملے گا اور اس کے بعد عمل کرنے والوں کا ثواب بھی ملے گا اوران کے ثوابوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ اور جوشخص اسلام میں ایک بری روش قائم کرے ، اسے اس کاگناہ ملیگا اور ا س کے بعد اس پر عمل کرنے والوں کا گناہ بھی اسے ملے اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔‘‘
وَبِاللّٰہِ التَّوفَیقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِهِ وَصَحبِهِ وَسَلَّمَ
اللجنۃ الدائمۃ ، رکن : عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان ، نائب صدر : عبدالرزاق عفیفی، صدر : عبدالعزیز بن باز۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب