سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(254) اہل بدعت کو خوش اسلوبی سے سمجھانا چاہئے

  • 8224
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1128

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 میں دمشق کی ایک مسجد میں نماز پڑھتا ہوں۔ ہر فرض نماز میں ایساہوتا ہے کہ جب ہم نماز پڑھ لیتے ہیں تو لوگ ایک کو کہتے ہیں وہ بلند آواز سے ایت الکرسی، سور ت اخلاص اور معوذتیں پڑھتاہے۔ جب وہ پڑھ چکتا ہے تب ہر نمازی آیت الکرسی اور تینوں سورتیں پرھتا ہے ۔ کیا یہ عمل نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت ہے یا بدعت ہے؟ کیا مجھے بھی ان کی موافقت کرنی چاہے اور اس پر ہمیشہ عمل کرناچاہے ؟ مجھے معلوم ہے کہ آیت الکرسی وغیرہ پڑھ سکتا ہے کہ جسے یاد نہیں اسے (سن کر ) آیت الکرسی اور معوذتیں یاد ہوجائیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز کے  بعدمذکورہ اشیاء بلند آواز سے پڑھنا کسی ایک نمازی کے لیے جائز ہے نہ سب کامل کر بلند آواز سے پڑھناجائز ہے اگرچہ تعلیم کے ادادہ سے ہی ہو، بلکہ یہ بدعت ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  اسے ایسا کرنا ثابت نہیں ۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد موجود ہے۔

((مَنْ أَحّدَثَ فِی أَمْرِنَا ہٰذَا مَالَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ))

’’ جس نے ہمارے اس دین میں وہ چیز ایجا دکی جواس میں سے نہیں تو بہ ناقابل قبول ہے۔‘‘

اس لیے آپ کو ان کی بدعت کی تائید نہیں کرنی چاہے بلکہ اس کی تردید کر دیں اور اچھے طریقے سے نصیحت کے انداز سے ان کو صحیح بات سجھائیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

﴿اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَة وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَة وَ جَادِلْہُمْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ ﴾

’’ اپنے رب کے راستے کیطرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دیجئے اور ان سے اس انداز سے بحث کیجئے جو بہت اچھا ہو۔‘‘

اور یہ حدث ثابت ہے کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

((مَنْ رَّاٰی مِنْکُمْ مُّنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ فَإِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ فَإِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ وَذٰلِکَ أَضْعَفُ الْإِیمَانِ ))

’’ تم میں سے جو شخص کوئی برا کام دیکھے اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے ، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے (منع کرے) اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل سے (برا سمجھے) اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے۔ ‘‘

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلددوم -صفحہ 293

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ