السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں آپ کی خدمت میں مندرجہ بالا حدیث پیش کر رہا ہوں جس میں مجھے اشکال پیش آیا اور اس کے بارے میں طلبہ میں اختلاف پیدا ہوگیا ہے۔ میں نے حدیث آپ کے سامنے اس لئے پیش کی ہے کہ آپ اس کی تحریری طور پر وضاحت فرمادیں تاکہ میں بھی اس کا مطالعہ کروں اور مجھ جیسے دوسرے طلبہ بھی پڑھیں اور ہمارے دلوں میں شک دور ہوجائے۔ حدیث یہ ہے۔:
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ ارشاد فرماتے تھے تو آپ کی آنکھیں سرخ ہوجاتیں، آواز بلند ہوجاتی‘ شدید غضب کا اظہار ہوتا، گویا آپ کسی لشکر (کے حملے) سے ڈرا رہے ہوں ار کہہ رہے ہوں کہ وہ صبح یا شام (کے وقت) تم پر حملہ کرنے والا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ’’مجھے اور قیامت کو ان دوانگلیوں کی طرح (قریب قریب) بھیجا گیا ہے (یہ کہتے ہوئے) آپ شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی کو ملالیتے اور فرماتے:
(اَمَّا بَعْدُ: فَأِنَّ خَیْرَ الْحَدِیْثِ کِتَابُ ا للّٰہِ وَخَیْرَ الْہَدْيِ هدْیُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْاُمُوْرِ مْحْدَثَاتُہَا وَکُلُّ بِدْعَة ضَلاَلَة)
’’امابعد! بہترین بات‘ اللہ کی کتاب اور بہترین طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے اور بدترین کا م وہ ہیں جو نئے ایجاد کئے جائیں اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘
’’میرا مومن سے تعلق خود اس کی ذات سے بھی بڑھ کر ہے، جوکوئی مال چھوڑے (اور فوت ہوجائے) تو وہ اس کے گھر والوں کا ہے اور جو شخص قرض یا چھوٹے بچے چھوڑ جائے تو (ان کی نگہداشت اور قرض کی ادائیگی) میرے ذمہ ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا۔ اس حدیث میں الفاظ ’’ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘ میں بدعت کے خلاف ہوں اور سنت کی تلوار کے ساتھ اس سے جنگ کرتا ہوں۔ میں نے آپ کی خدمت میں پیش کی ہے تاکہ آپ مجھے اس کی تشریح سمجھادیں او ر مجھے بدعت کا لغوی اور اصطلاحی مطلب سمجھا دیں تاکہ میں کسی ایسی چیز کی تردید نہ کروں جو بدعت نہیں ہے۔ بعض فقہاء نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بدعت پر بھی پانچوں احکام لگتے ہیں، کیا ان کے پاس اس تقسیم کی کوئی دلیل ہے؟ وہ کہتے ہیں کوئی بدعت واجب ہوتی ہے، کوئی مباح‘ کوئی مکروہ،کوئی مبدوب اور کوئی حرام۔ گزارش ہے کہ اس کی اچھی طرح وضاحت کردیں کیونکہ طلبہ میں اس بات میں اختلاف پیدا ہوگیا ہے کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’کل‘‘ کا لفظ حصر کا تقاضا کرتاہے۔ الا یہ کہ اس کے بعد استثناء آجائے۔ علاوہ ازیں ابو داؤد اور ترمذی رحمہا اللہ نے ایک طویل حدیث روایت کی ہے، جس میں یہ الفاظ بھی ہیں:
((فَعَلَیْکُمْ وَسُنَّة الْخُلَفَائِ الرّاشِدِینَ الْمَھْدِیَّینَ عَضُّوا عَلَیْھَا بِالنَّوَاجِذِ وَإِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ اْالأُمُورِ فَإِنَّ کُلَّ مُحْدَثَة بِدْعَة ضَلاَلَة فیِ النَّارِ)
’’ پس میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو اختیار کرو۔ اسے خوب مضبوطی سے پکڑ لو اور نئے نئے کاموں سے بچو، کیونکہ ہر نیا کام بدعت اور ہر بدعت گمرانہی ہے اور ہر گمراہی آگ میں (لے جانے والی ) ہے۔‘‘
گزارش ہے کہ یہ مسئلہ حل کردیں ج، جو میری سمجھ میں نہیں آرہا اور آپ کے سوا کوئی میرا یہ مسئلہ حل نہیں کر ریا۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
۱۔ اللہ تعالیٰ نے شریعت مکمل کر دی ہے ، لہٰذا اسے کسی انسان کی طرف سے مکمل کئے جانے کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ﴾
’’ آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل دین مکمل دیردیا ، اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کرلیا۔‘‘ (المائدہ: ۵/۳)
۲۔ عبادات میں اصل توقیف ہے۔ جو شخص (کسی کام کے متعلق ) کہے کہ یہ عبادت شرعی ہے اس کا فرض ہے کہ ایسی شرعی دلیل پیش کرے جس سے ا س کام کی مشروعیت ثابت ہو، ورنہ وہ عبادت ناقابل قبول ہے صحیح حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ثا بت ہے:
((مَنْ أَحْد!ثَ فِی أَمْرِنَا ہٰذَا مَالَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ))
’’ جس نے ہمارے اس دین میں وہ چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں تو وہ ناقابل قبول ہے۔‘‘
ایک روایت میں ہے:
((مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَیْسَ أَمْرُنَامِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ))
’’ جس نے کوئی ایسا عمل کیا جو ہمارے حکم کے مطابق نہیں تو وہ مردود ہے۔‘‘
۳۔ بدعت کا لغوی معنی ہے: ’’ ایک چیز کو شروع کرنا، یا بنایا جن کہ اس کی پہلے کوئی مثال موجود نہ ہو۔ ‘‘ اصطلاحی معنی یہ ہے کہ : ’’کوئی قولی ، عملی یا اعتقادی بدعت ایجاد کرنا جو اللہ تعالیٰ نے مشروع نہیں فرمائی۔ ‘‘ بدعتیں سب گمراہی ہیں جس طرح کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے۔
۴۔ دین میں بدعت کی پانچ قسمیں بنانے کی ، ہماری معلومات کے مطابق، شریعت میں کوئی بنیاد نہیں۔
ہم آپ کو نصحیت کرتے ہیں کہ امام شاطبی رحمہ اللہ کی کتا ب ’’ الاعتصام‘‘ کی طرف رجوع کریں ، انہوں نے بدعت کے متعلق جو تفصیلی مباحث بیان فرمئاے ہیں وہ کسی دوسری کتاب میں کم ہی یکجالیں گے۔ اسی طرح یہ کتابیں بھی مطالعہ کے لائق ہیں ’’ کتاب السنن والمبتدعات‘‘ ’’ کتاب الابداع فی مضار الابتداع‘‘ ’’ تبنیہ الغافلین‘‘ ازنحاس‘‘ ’’ زاد المعاد‘‘ از علامہ ابن قیم رحمہ اللہ، ’’ اتتضاء الصراط المستقیم ‘‘ از شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ۔
۵۔ لفظ ’ کل‘‘ اصطلاحی معنی کے لحاظ سے ’’ حصر‘‘کے الفاظ میں شامل نہیں وہ ’ عموم‘ کے الفاظ میں سے ہے ۔جیساکہ اصول فقہ کی کتابوں سے واضح ہے۔
وَبِاللّٰہِ التَّوفَیقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہِ وَصَحبِہِ وَسَلَّمَ
اللجنۃ الدائمۃ ، رکن : عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان ، نائب صدر : عبدالرزاق عفیفی، صدر : عبدالعزیز بن باز۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب