سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(204) تیجانی عقیدہ رکھنے والوں کے متعلق شریعت کا حکم

  • 8179
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1209

سوال

(204) تیجانی عقیدہ رکھنے والوں کے متعلق شریعت کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تیجانی عقیدہ رکھنے والوں کے متعلق شریعت کا حکم


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مندرجہ بالا حوالے تیجانے فرقہ کی بے شمار بدعتوں میں سے چند ایک بطور نمونہ پیش کئے ہیں، اس قسم کی بہت سی باتیں علی حراز کی کتاب ’’جواہر المعانی وغایۃ الامانی‘‘ اور عمر بن سعید فوتی کی کتاب ’’رماح حزب الرحیم علی نحور حزب الرجیم‘‘ میں پائی جاتی ہیں۔ یہ دونوں کتابیں اس فرقہ کے افراد کی نظر میں سب سے زیادہ معتبر اور سب سے مفصل کتابیں ہیں۔

مذکورہ بالا حوالوں میں تیجانیہ فرقے کی مختلف قسم کی بدعتوں کے کچھ نمونے پیش کئے گئے ہیں، جن سے ان کے عقائد واضح طور پر سامنے آجاتے ہیں۔ کوئی بھی شخص جب ان باتوں کو قرآن وحدیث پر رکھتا ہے، تو اسے ان غلط قسم کی بدعتی عقائد کے حاملین کے متعلق فیصلہ کرنے کے لیے مزید حوالہ جات کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔

(۱)  اس سلسلہ کے بانی احمد بن محمد تیجانی اور اس کے متبعین کا اس کے متعلق حد سے بڑھا ہوا غلو، حتیٰ کہ اس نے اپنے لئے نہ صرف نبوت کی خصوصیات ثابت کی ہیں بلکہ ربوبیت اور الوہیت کی صفات بھی اپنی طرف منسوب کی ہیں اور اس کے مریدوں نے ا سکی پیروی کی ہے۔

(۲)  وہ فنا اور وحدت الوجود پر یقین رکھتا ہے اور خو دکو اس مقام کا حامل قرار دریتا ہے بلکہ خود کو اس کے بلند ترین مرتبہ پر فائز سمجھتا ہے اور اس کے مرید اس کی تصدیق کرتے، اس پر ایمان لاتے اور یہی عقیدہ رکھتے ہیں۔

(۳)  اس کا یہ دعویٰ ہے کہ اس نے حالت بیداری میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی زیارت کی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے خود اسے طریقہ تیجانیہ سکھایا ہے اور اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے براہ راست اس کا وظیفہ سیکھا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے حالت بیداری میں اسے عوام کی تربیت کرنے اور انہیں یہ ورد سکھانے کی اجازت دی ہے، اس کے مرید اور پیروکار اس کے اس دعویٰ کو صحیح سمجھتے ہیں۔

(۴)  اس نے صاف طور پر یہ بات کہی ہے کہ اللہ کی طرف سے فیوض وبرکات پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  پر نازل ہوتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے انبیاء کو حاصل ہوتے ہیں اور تمام انبیاء سے یہ فیوض حاصل اس کی طرف منتقل ہوجاتے ہیں اور پھر تخلیق آدم سے قیام قیامت تک کے تمام انسانوں پر یہ فیوض وبرکات صرف اسی کی طرف سے تقسیم ہوتے ہیں۔ اس کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ بسا اوقات یہ فیوض وبرکات جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے براہ راست اس پر نازل ہوجاتے ہیں اور پھر اس سے تمام مخلوقات کو حاصل ہوتے ہیں۔ اس کے مرید اس کے اس دعویٰ کو سچ سمجھتے ہیں اور یہی عقیدہ رکھتے ہیں۔

(۵)  اس نے اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس پر اور اللہ تعالیٰ کے تمام اولیاء پر حملہ کیاہے اور ان کی شان میں گستاخی کی ہے۔ کیونکہ وہ کہتا ہے: ’’میرے قدم ہر ولی کی گردن پر ہیں‘‘ جب اس سے کہا گیا کہ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بھی یہی کہا تھا کہ میرے قدم ہر ولی کی گردن پر ہیں تو جواب میں تیجانی نے کہا ’’جیلانی رحمہ اللہ کی بات بھی درست تھی‘ لیکن انہیں صرف ان کے زمانہ والوں پر فضیلت حاصل تھی اور میرے قدم تو تخلیق آدم سے قیام قیامت تک کے تمام اولیاء کی گردن پر ہیں۔‘‘ جب اس سے سوال کیا گیا کہ کیا اللہ تعالیٰ اس کے بعد اس سے زیادہ درجہ والا ولی پیدا کرنے پر قادر نہیں؟ تو اس نے کہا: ’’قادر تو ہے لیکن وہ ایسا نہیں کرے گا۔ جس طرح اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعد کوئی نبی پیدا کردے، لیکن وہ ایسا نہیں کرے گا، اس کے مرید اس کی ان باتوں پر ایمان رکھتے اور ا سکا دفاع کرتے ہیں۔

(۶)  اس نے یہ جھوٹا دعویٰ بھی کیا ہے کہ وہ غیب جانتا ہے اور دلوں کی باتو ں سے واقف ہے اور دلوں کو ادھر سے ادھر پھیر سکتا ہے، اس کے مرید اس کی تصدیق کرتے ہیں اور ان باتوں کو اس کی تعریف اور کرامت قرار دیتے ہیں۔

(۷)  اس نے قرآن مجید کی آیات کی غلط تفسیر کی ہے اور ان میں معنوی تحریف کا ارتکاب کیا ہے اور اسے تفسیر اشاری قرار دیا ہے۔ جیسا کہ مذکورہ بالا تفصیل میں بطور اس آیت کی مزعومہ تفسیر پیش کی گئی ہے:

﴿مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیَانِ ٭بَیْنَہُمَا بَرْزَخٌ لَا یَبْغِیَان﴾

اس کے مرید اسے اللہ کی طرف سے حاصل ہونے والا فیض قرار دیتے ہیں۔

(۸)  وہ درود شریف کو تلاوت قرآن سے افضل صرف چوتھے درجے والو ں کیلئے قرار دیا یتا ہے، جو اس کی نظر میں ادنیٰ درجہ کے افراد ہیں۔

(۹)  اس کا اور اس کے پیروکاروں کا یہ دعویٰ ہے کہ قیامت کے دن میدان محشر میں ایک اعلان کرنے والا اعلان کرے گا: ’’اے محشر والو! یہ تمہا را امام ہے جس سے تمہیں دنیا میں مدد ملتی تھی۔‘‘

(۱۰)  ا س کا دعویٰ ہے کہ جو شخص تیجانی سلسلۂ  کا فرد ہوگا وہ بلا حساب کتاب جنت میں جائے گا خواہ اس نے کتنے گناہ کئے ہوں۔

(۱۱)  اس کا کہنا جو شخص اس کے سلسلے میں منسلک ہو اور پھر اسے چھوڑ کر کسی اور سلسلہ تصوف میں داخل ہوجائے، اس کی حالت خراب ہوجائے گی اور اس کے بارے میں خطرہ ہے کہ اس کا انجام برا ہوگا اور اس کی موت کفر پر آئے گی۔

(۱۲)  وہ کہتا ہے کہ مرید کو شیخ کے سامنے اس طرح ہونا ضروری ہے جس طرح میت غسال (نہلانے والے) کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور اسے کوئی اختیار حاصل نہیں ہوتا۔ بلکہ اسے اپنے پیر کا پوری طرح مطیع ہونا چاہئے۔ یہ نہ کہے: ’’کیوں؟ کیسے؟ کس بنیاد پر؟ کس مقصد کے لئے؟‘‘

(۱۳)  اس کا دعویٰ ہے کہ اسے اسم اعظم ملا ہے اور اسے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسم اعظم سکھا یاہے۔ پھر اس میں خوب مبالغہ کیا ہے اور لاکھوں کروڑوں نیکیوں تک اس کا ثواب پہنچادیا ہے۔ یہ سب باتیں انکل پچو ہیں اور ایسے معاملے میں مداخلت ہے جس کا علم صرف قرآن وحدیث سے ہی ہوسکتا ہے۔

(۱۴)  وہ کہتا ہے کہ نبی‘ رسول اور ولی مرنے کے عبد قبر میں ایک مقررہ مدت تک ٹھہرتے ہیں اور یہ مدت ان کے درجات اور مراتب کے فرق کی بنیاد پر کم وبیش ہوتی ہے، اس کے بعد وہ جسم سمیت قبروں سے باہر آجاتے ہیں اور اسی طرح زندہ ہوتے ہیں جس طرح مرنے سے پہلے تھے۔ البتہ عام لوگ انہیں دیکھ نہیں سکتے، جس طرح ہمیں فرشتے نظر نہیں آتے حالانکہ وہ زندہ ہیں۔

(۱۵)  اس کا دعویٰ ہے کہ اذکار اور وظائف کی مجلسوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم  اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم جسموں سمیت حاضر ہوتے ہیں۔‘‘

یہ تمام باتیں اور اس قسم کی دوسری باتیں جب اسلام کے اصولوں کی روشنی میں پرکھی جائیں تو وہ شرک‘ الحاد‘ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اور دین اسلام کی شان میں گستاخی ثابت ہوتی ہیں اور لوگو ں کی گمراہی کا باعث ہیں اور ان میں ناجائز فخر وغرور بھی پایا جاتا ہے۔ کیونکہ وہ علم وغیب وغیرہ کا دعویٰ رکھتا ہے۔

اللہ کی توفیق سے یہ چند باتیں مختصراً بیان کر دی گئیں۔

وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلَّمَ

 اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن بازفتویٰ (۲۰۸۹)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلددوم -صفحہ 222

محدث فتویٰ

تبصرے