سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(203) تیجانی عقائد کا مختصر بیان

  • 8178
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1849

سوال

(203) تیجانی عقائد کا مختصر بیان

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تیجانی عقائد کا مختصر بیان


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس کے اور اس کے متبعین کے عقائد کا مختصر بیان:

ہیۂ  کبار العلماء کی کمیٹی کے دسویں اجلاس میں پیش کرنے کے لئے یہ مقالہ لکھنے کے جو اسباب ہیں ان کا مقصد اس طریقہ کے بڑوں سے مباحثہ یا ان کی تردید اور ان کے سامنے صحیح بات پیش کرنا نہیں، بلکہ مقصد صرف یہ ہے کہ ان کی کتابوں کا مطالعہ کر کے ایسے حوالے پیش کردیئے جائیں جن سے ان کے عقائد واضح ہوجائیں۔ پھر ان کی روشنی میں ان حوالوں کے تقاضے کے مطابق ان پر حکم لگایا جائے۔

اس لئے مجلس افتاء وتحقیقات علمیہ نے ان کی کتابوں سے چند عبارتیں نقل کی ہیں جن سے ان کے عقائد واضح ہوجاتے ہیں اور ان کی روشنی میں ان لوگوں کے بارے میں فیصلہ کرنا آسان ہوجاتا ہے ہم نے ان عبارتوں میں اپنی طرف سے چند اشارات کے سوا کوئی اضافہ نہیں کیا ہے۔ ذیل میں علی حرازم کی کتاب ’’جواہر المعانی وبلوغ الامانی‘‘ اور عمر بن سعید فوتی کی کتاب ’’رماح حزب الرحیم علی نحور حزب الرجیم‘‘ کے چند اقتباسات پیش کئے جاتے ہیں:

علی حرازم کہتا ہے: سیدنا (احمد تیجانی) اسے شیخ واصل کی حقیقت کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: ’’شیخ واصل (خدارسیدہ یعنی پہنچا ہوا پیر) وہ ہوتا ہے جس کے سامنے سے درمیانی پردے ہٹ جائیں اور حضرت الٰہیہ میں کمال درجہ کی عینی نظر اور یقینی تحقیق حاصل ہوجائے۔ کیونکہ اس کا کام ابتدائی مرحلہ ’’محاضرہ‘‘ ہے یعنی کثیف پردے کے پیچھے سے حقائق کا بلا حجاب ظاہر ہوجانا لیکن اس می ذاتی خصوصیت باقی رہتی ہے۔ اس کے بعد ’’معاینہ‘‘ ہے یعنی حقائق کااس طرح مطالعہ کرنا کہ حجاب باقی رہے نہ خصوصیت او رنہ غر اور نہ غیریت کے عینا یا اثراً باقی رہے۔ یہ مقام ہے پس جانے، مٹ جانے اور فنا الفنا کرنا کہ حجاب باقی رہے نہ خصوصیت اور نہ غیریت عینا یا اثراً باقی رہے۔ یہ مقام ہے پس مٹ جانے، مٹ جانے اور فنا الفنا کا، یہاں تو حق کا معیاینہ فی الحق للحق باالحق ہوتاہے۔

فَلَمْ یَبْقَ أِلاَّ اللّٰہُ لاَ شَئيئَ غَیْرُہُ  فَمَا ثَمَّ مَوْصُولٌ وَمَا ثَمَّ وَاصِلٌ

’’پس اللہ کے سوا کچھ بھی باقی نہ رہا، اس کے سوا کچھ بھی نہیں  نہ صاحب وصل نہ وہ جس سے وصل ہوا۔‘‘

اس کے بعد ’’حیات‘‘ کا درجہ ہے۔ یعنی مراتب کو اس طرح الگ الگ پہچاننا کہ ان کی تمام خصوصیات‘ تقاضے، لوازم اور جن اشیاء کے وہ مستحق ہیں معلوم ہوجائیں اور یہ معلوم ہو کہ ہر مرتبہ کس حضوری سے تعلق رکھتا ہے؟ وہ کیوں پایا جاتاہے؟ اس سے کیا مقصود ہے؟ اور اس کا کیا نتیجہ کیا ہوگا؟ یہ وہ مقام ہے جاں بندے کو خود ذات کا اور اس کی تمامم خصوصیات واسرار کا مکمل علم حاصل ہوجاتا ہے اور اسے یہ معرفت حاصل ہوتی ہے کہ ’’حضرت الٰہیہ‘‘ کیا ہے؟ اور وہ کس عظمت‘ جلال‘ کمال اور صفات علیا سے متصف ہے۔ اس کو ذوقی طور پر معرفت اور یقینی معاینہ حاصل ہوتا ہے۔

لیکن اس صفت کے ساتھ ساتھ اسے حق کی طرف سے اذن خاص کا کمال حاصل ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے بندوں کو ہدایت دے اور اسے ان پر یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ حضرت الٰہیہ کی طرف ان کی رہنمائی کرے۔ یہی وہ شخص ہے جو تلاش کئے جانے کا مستحق ہے۔ حضرت اوب حجیفہ رضی اللہ عنہما کی روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ارشاد سے یہی شخص مراد ہے۔ ارشاد ہے: ’’علماء سے سوال کر، حکماء کے ساتھ مل جل کر رہ اور کبراء کی صحبت اختیار کر۔‘‘ اسی مرتبہ والے کو ’’کبیر‘‘کہا جاتا ہے۔ جب مرید کو اس صفت کا حامل پیر مل جائے تواس کے لئے ضروری ہے کہ اپنے آپ کو اس کے سامنے اس طرح رکھے جس طرح مردہ غسل دینے والے کے سامنے ہوتا ہے۔ اس کا اختیار ہے نہ ارادہ اور نہ وہ کسی کو کچھ دے سکتاہے نہ فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ مرید کی نیت یہ ہونی چاہئے کہ پیر اسے اس مصیبت سے نجات دے کر جس میں وہ غرق ہے، اس درجہ صفاء کے کمال تک پہنچادے کہ وہ ہر چیز سے منہ موڑ کر صرف حضرت الٰہیہ کا مطالعہ کرسکے۔ اسے چاہئے کہ اپنے قسم کے سوال کرنے سے پرہیز کرے کیوں؟ کیسے؟ کس وجہ سے؟ کس مقصد کے لئے؟ یہ سوالات ناراضگی اور راندۂ  درگاہ ہوجانے کا سبب بن جاتے ہیں۔ اسے یہ عقیدہ رکھنا چاہئے کہ ا سکی مصلحت کو اس کی نسبت اس کا شیخ زیادہ جانتا ہے۔ وہ اسے جس راستے پر بھی چلاتا ہے وہ اللہ کے لئے، اللہ کے ساتھ یہ کام کررہا ہوتا ہے اور اس طرح وہ نفس کو تاریکی اور خواہش سے پاک کررہا ہوتاہے… الخ

احمد بن محمد تیجانی کے مرید اس کے متعقل کس قدر غلو کرتے ہیں، اس کی ایک مثال علی حراز کی یہ عبارت ہے۔ وہ کہتا ہے: ’’تجھے معلوم ہونا چاہئے۔ اللہ تجھ پر رحم کرے کہ میں سیدنا وشیخنا ومولانا احمد تیجانی رحمہ اللہ کے تمام مآثر، مناقب‘ نشانات اور کرامات ابد الآباد تک بیان نہیں کرسکتا۔ کیونکہ جب بھی میں ان کا کوئی شرف بیان کرتا ہوں مجھے دوسرا شرف نظر آجاتا ہے اور جب میں کسی کرامت کو یاد کرتا ہوں اس سے بڑی کرامت میرے سامنے آجاتی ہے…‘‘ آگے کہتاہے ’’کیونکہ شیخ کے مآثر کا شمار نہیں ہوسکتا اور ان کے مناقب کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا، ان کی خبریں وہاں وہاں پہنچ کر مشہور ہوچکی ہیں جہاں دن اور رات آتے جاتے ہیں، یہ بے حد اور بے شمار ہیں۔ ہم تو ان میں سے چند ایک ہی بطور نمونہ ذکر کر سکتے ہیں۔ ورنہ ان کے بیان سے تو قلم اور کاغذ بھی تھک جائیں اور ان کو تلاش کرنے میں ہاتھ اور پاؤں جواب دے جائیں…‘‘

جواہر المعانی میں مصنف نیجن افراد کا کلام نقل کیاہے، ان کا ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے: ’’اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو ان کے سلسلہ سے منسلک لوگوں میں، ان کی جماعت میں شمار ہونے والوں میں اور ان کی اور ان کے محبت کرنے والوں کی قدر جاننے والوں میں شامل کرے، بجاہ محمد وآلہ وصحبہ۔ کیونکہ ان کا دامن پکڑنے والا اپنی امید تک پہنچ جاتا ہے اور اس کا مقصد جلد حاصل ہوجاتا ہے۔ پس اے محبت رکھنے والے! جب ان کا ذکر ہو تو عاجزی کا ہات پھیلانا اور ان کے دروازے پر ذلیل بن کرکھڑا ہو اور بزبان احتیاج عرض کر ’’اپنے حقیر کمزور غلام پر رحم کیجئے، اگر وہ ظلم اور کوتاہی کا مرتکب ہو‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی زبان سے ارشاد فرمایا ’’میں شکستہ دلوں سے قریب ہوں…‘‘ آگے جاکر لکھتا ہے: ’’یہ نہیں ہوسکتا کہ جو ان کا دامن پکڑے وہ ا س کا خیال نہ رکھیں اور جو ان کا قرب اختیار کرے اسے چھوڑ دیں، کیونکہ ان کے ہاں آنے والا بن بلایا مہمان بھی خالی نہیں لوٹایا جاتا اور اسے ان کے دروازے سے روکا نہیں جاتا۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے؎

ھُمْ سَادَتِي ھُمْ رَاحَتِي ھُمْ مُنیَتِي      أَھْلُ الصَّفَا حَاُوا الْمَعَالي الْفَاخِرَۃ

حَشًّا لِمَنْ قَدْ حَبَّھُمْ أَوْزَادَھُمْ          أَنْ یُھْمِلُوہُ سَادَتِي فِي الْأخِرَۃ

’’وہ میرے آقا ہیں، میری راحت ہیں، میری تمنا ہیں، اہل صفا ہیں جنہیں قابل فخر بلندیاں حاصل ہیں جو ان سے محبت کرے یا ان کی زیارت کرے تو یہ نہیں ہوسکتا کہ میرے آقا تغافل کر کے اسے چھوڑ دیں۔‘‘

ایک اور مقام پر لکھا ہے: ’’بعض لوگو ں پر ان کے ضعف کی وجہ سے حال غالب آجاتا ہے اور بعض لوگوں پر واردات کی قوت کی وجہ سے غالب آجاتا ہے۔ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ جس پر اس کے ضغف کی وجہ سے حال غالب ہوتا ہے۔ اس کی علامت یہ ہے کہ وہ دوسرے کو صاحب حال نہیں بناسکتا، اس کا حال اس کی ذات تک محدود ہوتا ہے اور جس پر حال اس لئے غالب آتا ہے کہ حال زیادہ قوی تھا، اس کی علامت یہ ہے کہ وہ دوسروں کو بھی فیض یاب کرتا ہے۔ اس سے زیادہ قوی حال یہ ہے کہ جس کو صاحب حال بنایا ہے اس سے حال واپس بھی لے سکے اور یہی وہ ’’کامل‘‘ ہے جو دیتا بھی ہے اور چھین بھی لیتا ہے ویسے یہ سب کچھ فضا وقدر کے تحت ہے۔ ہم نے کئی بار دیکھا ہے کہ بعض بھائیوں کے ساھت ان کے سوائے ادب کی وجہ سے کسی اور سبب سے یہ معاملہ کیا گیا…‘‘ الخ

مندرجہ بالا عبارتوں میں بے حد غلو اور واضح شرک اس حد تک پایا جاتا ہے کہ وضاحت کی ضرورت نہیں اور یہ باتیں کہنے والا حد سے اتنا بڑھ گیا ہے کہ اس کے کلام کی کوئی تاویل بھی نہیں کی جاسکتی‘ نہ اس کی طرف سے کوئی قابل قبول عذر پیش کیا جاسکتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ باتیں کہتے وقت قائل اس کیفیت میں تھا کہ اس کی عقل اس کا ساتھ چھوڑ گئی تھی اور وہ ایسی حالت میں تھا جو قابل تعریف نہیں ہے۔ لیکن اس کا احترام کرنے والے یہ رائے نہیں رکھتے، نہ یہ بات قبول کرتے ہیں بلکہ وہ مذکورہ بالا کیفیات کو اس کی خوبی اور کرامات تصور کرتے ہیں۔

اس کے بعد مصنف نے احمد تیجانی کے متعلق لکھا ہے کہ ان کے کلام کا اصل موضوع فنا اور وحدۃ الوجود ہے اور لکھا ہے کہ ولی اگر اپنے وجود کا احسا س رکھتا ہے تو یہ شرک سمجھا جائے گا۔

احمد تیجانی کے متعلق بات کرتے ہوئے لکھتا ہے ’’آپ اکثر اس مسئلہ کو بیان فرماتے اور اس کی تائید کرتے ہیں اور اپنے کلام اور حال سے اس کی طرف رہنمائی فرماتے ہیں اور اپنے حال پر بطور تمثیل یہ شعر پڑھتے ہیں کہ میرے ساتھ کمال کا بدر ہے جدھر بھی وہ جائے میرا دل مائل ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے اللہ کے سوا کو محو کردیا ہے، اس لئے وہ اللہ کے ساتھ غیر کا مشاہدہ  نہیں کرتے اور ماسوا کو نفع نقصان پہنچانے والا نہیں سمجھتے، بلکہ وہ دیکھتے ہیں کہ فعل اللہ کی طرف سے ہے اور وہی تصرف کرنے والا ہے اور وہ اپنے فعل سے اس پر دلالت کرتے اور پہچان کرواتے اور یہ کہ اس کے تمام افعال حکمت پر مبنی ہیں اور رحمت نے ان کو گھیر رکھا ہے۔ وہ مخلوق کو اس طرح دیکھتے ہیں کہ وہ ہاتھ میں مسخر کئے ہوئے برتن ہیں،وہ انسان کے اپنی ذات کے مشاہدہ کو بھی دوئی سمجھتے ہیں اور زبان حال سے کہتے ہیں: جب میں کہتا ہوں کہ میں نے تو کوئی گناہ نہیں کیا تو میرا دل کہتا ہے ’’تیرا و جود خود ایک گناہ ہے جس کے برابر کوئی گناہ نہیں۔‘‘

’’اس معنی پر آپ کی یہ حالت ہوگئی تھی کہ آپ (تیجانی) کے افعال‘ اقوال‘ تصریح اور کنایہ سب کے سب فنا فی اللہ اور ماسوی سے غیبت کے گرد گھومتے تھے۔‘‘

آگے چل کر لکھتا ہے: ’’آں جناب دلوں کو زندہ کرتے اور عیبوں سے پاک کردیتے تھے۔ ایک نظر میں غنی کردیتے اور حضور نصیب کردیتے تھے، جب توجہ فرماتے تو (روحانی کمالا میں) غنی کردیتے اور ذخیرہ جمع فرمالیتے اور مقصود تک پہنچا دیتے تھے، دلوں کے احوال میں علام الغیوب کی اجازت سے تصرف فرماتے تھے…‘‘

شیخ کے اپنی ذات کے بارے میں غلو اور ان کے مریدوں کے ان کے بارے میں غلو کا یہ ایک اور رنگ ہے۔ جس سے وہ فنا اور وحدت ا لوجود تک پہنچ گئے۔ حقیقت میں یہ دین کے معاملے میں بے راہ روی‘ اللہ پر بہتان اور واضح کفر ہے۔

اس کے بعد مصنف یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کے پیر کو علم غیب حاصل ہے۔ چنانچہ کہتا ہے ’’حضرت رحمہ اللہ کے کمال کا ایک پہلو آپ کی بصیرت ربانی اور فراست نورانی کا نفوذ ہے، جس کا اظہار ساتھیوں کے احوال کا علم ہوجانے، دل کی باتیں جاننے، غیبی امور کی خبریں دینے اور حاجات کے نتائج کو جاننے اور ان کے نتیجہ میں حاصل ہونے والے فوائد‘ آفات اور واقع ہونے والے دیگر امور کا علم سے ہوتاہے۔ آپ ساتھیوں کے دلوں کے حالات اور ان کے احوال کی تبدیلی‘ ان کے اغراض کا تغیر تبدل‘ ان کے متوجہ ہونے اور پیچھے ہٹ جانے کی حالت اور ان کے تمام علل اور امراض کو جانتے تھے اور ان کی تمام ظاہری وباطنی کیفیات اور ان میں کمی بیشی سے واقف تھے۔ کبھی یہ چیزیں بیان بھی کردیتے تھے اور کبھی ان پر شفقت فرماتے ہوئے انہیں امتحان میں ڈالنے کی غرض سے اخفا سے کام لیتے تھے۔ اس قسم کے متعدد واقعات مختلف افراد کے ساتھ متعدد بار پیش آئے۔‘‘

اس کے بعد مصنف بیان کرتا ہے کہ اس کے شیخ کو اسم اعظم کس طرح حاصل ہوا اور اس کا کتنا ثواب ہے۔ چنانچہ کہتا ہے: ’’اسم اعظم کے ثواب کے بارے میں حضرت رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ’مجھے اللہ کے عظیم اسم اعظم کے کئی صیغے دئے گئے ہیں اور مجھے اس کی تراکیب میں جو کچھ ہے اس کے استخراج کا طریقہ سکھا یا ہے۔ حضرت صاحب کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے بتایا ہے کہ اس میں کس قدر بے حدو حساب اجرو ثواب ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت کو اس (اسم اعظم) کے عظیم خواص‘ اس کے ساتھ دعا کرنے کا طریقہ اور اس کے سلوک کی کیفیت بھی بیان کی ہے۔ جہاں تک ہمیں علم ہے جس مقام تک حضرت صاحب رحمہ اللہ  پہنچے ہیں کوئی اور نہیں پہنچ سکا۔ کیونکہ حضرت نے فرمایا: ’’مجھے سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم  نے وہ اسم اعظم عطا فرمایا جو سید ناعلی کرم اللہ وجہ کے ساتھ خاص تھا۔ اس سے پہلے مجھے وہ اسم اعظم بھی عطا فرمایا جو خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے مقام کے لئے مخصوص تھا۔‘‘ حضرت صاحب نے فرمایا ’’سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا ’’سیدنا علی کا یہ مخصوص اسم صرف اسی کو دیا جاتا ہے جس کے متعلق اللہ کے ہاں ازال سے یہ فیصلہ ہوچکا ہو کہ وہ قطب ہوگا۔‘‘ پھر حضرت نے فرمایا: ’’میں نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم  سے عرض کی ’’مجھے اس کے تمام اسررار اور مشمولات کی اجازت مرحمت فرمائیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اجازت دے دی۔‘‘ اسم اعظم کبیر جو قطب الاقطاب کا مقام ہے اس کا جو ثواب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم  نے بیان فرمایا، حضرت صاحب اسے بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’اس کو پڑھنے والے کو جنت میں ستر ہزار مقام حاصل ہوں گے۔ ہر مقام میں جت کی ہر چیز ستر ہزار کی تعداد میں موجود ہوگی مثلاً حوریں، محلات‘ نہریں اور جو کچھ بھی جنت میں پیدا کیا گیا ہے۔ سوائے حوریں اور شہد کی نہروں کے کہ ہر مقام میں اس کی ستر حوریں ہوں گی اور شہد کی نہریں ہوں گی اور اس کے منہ سے جو لفظ نکلے گا، اس کے لئے چار مقرب فرشتے نازل ہوں گے اور اسے اس کے منہ سے ادا ہوتے ہی لکھ لیں گے اور اسے لے کر اللہ تعالیٰ کے پاس جائیں گے اور اسے دکھائیں گے۔ تو اللہ جل جلالہ فرمائیں گے: اس کا نام خوش نصیبوں میں لکھ لو اور اس کا مقام علیین میں جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کے پڑوس میں لکھ لو۔ اس ذکر کے ہر حرف کا اتنا ہی ثواب ہے اور ایک بار اسم اعظم پڑھنے کا ثواب ہے جتنا تمام جہانوں میں موجود تمام مخلوقات کی زبانوں سے کئے گئے اللہ کے مجموعی ذکر پر ہے اور ایک بار پڑھنے کا ثواب ہے جتنا آدم علیہ السلام کی تخلیق سے لے کر آخر زمانے تک تمام مخلوقات کی زبانوں سے اللہ کی تسبیح بیان ہوئی ہے۔‘‘… اسی طرح بغیر علم کے ہوائی فائر کرتے ہوئے ظن وتخمین کی بنیاد پر اسی قسم کا ہزاروں لاکھوں گنا ثواب بتایا گیا ہے‘‘ آگے چل کر علی حراز کہتا ہے: ’’حضرت مرشد رضی اللہ عنہما نے ہمیں یہ فضائل بھی لکھوائے۔ فرمایا: جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی بعثت سے لے کر نفخ صور (قیام قیامت) تک تمام امت نے جس قدر قرآن کی تلاوت کی ہے، ہر ہر فرد کا ہر لفظ شمار کیا جائے اور اس سب کا ثواب جمع کیا جائے تو اسم اعظم کے ثواب کے مقابلے میں ایسا ہے جس طرح سمندر کے مقابلے میں ایک نقطہ۔ یہ وہ چیز ہے جس کاکسی کو علم نہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو نہیں بتایا، صرف بندوں کو بتانے کی اس مشیت ہوئی انہی کو بتایا۔‘‘حضرت صاحب نے مزید فرمایا: ’’اسم اعظم وہ ہے جو ذات کے ساتھ خاص ہے غیر کے ساتھ نہیں، وہ ہر چیز کا احاطہ کرنے والااسم ہے اس میں جو کچھ (اسراروبرکات وغیرہ) ہیں، اس کا مکمل تحقیق زمانے میں صرف ایک شخص کو ہوتا ہے اور وہ فرد جامع ہے۔ یہ اسم باطن اور جو اسم اعظم ظاہر ہے وہ اس مرتبہ کا نام ہے جو اللہ کی صفات میں سے مرتبہ الوہیت کا جامع ہے۔ اس سے نیچے اسمائے شتیت کا درجہ ہے اور ان اسماء سے اولیاء کو فیض حاصل ہوتے ہیں۔ جس کوکسی ایک وصف کا تحقیق ہوگیا اسے اس اسم کے مطابق فیض حاصل ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے ان کے مقامات اور احوال مختلف ہوتے ہیں اور مرتبہ کے تمام فیوض اسم ذات اکبر کے فیوض کا بعض حصہ ہیں۔‘‘ حضرت نے فرمایا: ’’جب ذکرا سم کبیر کا ذکر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذکر سے بہت سے فرشتے پیدا کرتا ہے،  جن کی تعداد اللہ ہی کو معلوم ہے۔ ان میں سے ہر فرشتے کی اتنی زبانیں ہوتی ہیں جتنے اس اسم کے ذکر سے فرشتے پیدا ہوئے ہیں اور وہ ہر لمحہ ذکر کرنے والے کے لئے بخشش کی دعا کرتے ہیں۔ یعنی ہر فرشتہ ہر لحظہ اپنی تمام زبانوں کے شمار کے مطابق دعائے مغفرت کرتا ہے اور قیامت تک وہ اسی طرح کرتے رہیں گے۔ پھر میں نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم  سے ’’مسبعات عشر‘‘ (وہ دس اذکار جو سات سات بار پڑھے جاتے ہیں) کی فضیلت کے متعلق پوچھا اور یہ کہ جو شخص انہیں ایک بات پڑھتا ہے ایک سال تک اس کے گناہ نہیں لکھے جاتے۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھے ارشاد فرمایا: تمام اذکار کی فضیلت اور تمام اذکار کے اسرار اسم کبیر میں موجود ہیں۔‘‘ پھر حضرت نے فرمایا:’’اس کا ذکر کرنے والے کے لئے اتنا ثواب لکھا جاتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاں میں جتنے فرشتے پیدا کئے ہیں، ہر فرشتے کے بدلے بیس شب قدر کا ثواب لکھا جاتا ہے اور ایک دفعہ یہ اسم شریف پڑھنے کے عوض ہر چھوٹی بڑی دعا تیس کروڑ ساٹھ لاکھ (چھتیس ملین) بار پڑھنے کا ثواب لکھا جاتا ہے۔‘‘ حضرت نے یہ بھی فرمایا: ’’اگر یہ فرض کیا جائے کہ کسی شخص نے تمام زبانوں میں اللہ تعالیٰ کے تمام اسمائے مبارکہ کا ذکر کیا ہے تو سب ثواب اس اسم کے ثواب کا نصف ہوگا۔‘‘

عمر بن سعید فونی نے کتاب الرماح میں لکھا ہے کہ ’’اولیاء اللہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو بیداری میں دیکھتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  جہاں اور جس مجلس میں چاہتے ہیں اپنے جسم اطہر اور روح مبارک کے ساتھ تشریف لے جاتے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم  زمیں کے ہر حصے میں ملکوت میں تصرف کرتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اسی حالت میں وفات سے پہلے تھے، کوئی تبدیلی نہیں آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نظروں سے اس طرح پوشیدہ ہیں جس طرح فرشتے جسم سمیت زندہ ہونے کے باوجود آنکھوں سے اوجھل ہوتے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کو نبی علیہ السلام کی زیارت کرانا چاہتا ہے اس کے سامنے سے پردے ہٹا دیتا ہے اور وہ بندہ نبی علیہ السلام کو اسی حالت میں دیکھتا ہے جس حالت میں نبی علیہ السلام (وفات سے پہلے) تھے۔ پھر اس نے اس فصل می ں بہت سے صوفیوں کے اقوال نقل کئے ہیں جن میں اس قسم کی حکایتیں ہیں کہ اولیاء نے بیداری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی زیارت کی اور اس فصل میں بہت سی عجیب وغریب باتیں لکھی ہیں کہ انبیاء اور قطب کعبہ کے پاس جسموں سمیت مجلس فرماتے ہیں اور مخلوقات کے بعد اپنی قبروں میں ایک مقررہ مدت تک ٹھہرتے ہیں اور یہ مدت ان کے درجات ومراتب کے مطابق مختلف ہوتی ہے۔ اس نے یہ فصل ان الفاظ پر ختم کی ہے: ’’جب آپ ان تمام اشیاء پر غور کریں گے جو ہم نے ابتدائے فصل سے یہاں تک بیان کی ہیں تو آپ کے سامنے بالکل واضح ہوجائے گا اور اس میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں رہے گی کہ جناب القطب المکتوم والبرزخ المختوم شیخنا احمد بن محمد تیجانی (اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے سمندر سے عظیم ترین برتن کے ساتھ پلائے اور ہمیں جنت میں ان کا پڑوس نصیب کرے۔ (اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو اور راضی کرے اور ان کے طفیل ہم سے بھی راضی ہوجائے) جناب سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے خواب میں نہیں، بلکہ بیداری میں ملاقات فرماتے تھے، وہ (اللہ ان سے راضی ہوا اور انہیں راضی کرے اور ان کے طفیل ہم سے راضی ہوجائے) اپنے نانا سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے براہ راست حضور علیہ السلام کی زبان سے اخد فرماتے تھے۔ (اللہ ان سے راضی ہو انہیں راضی کرے اور ان کے طفیل ہم سے راضی ہوجائے اور دنیا، برزخ اور آخرت میں ہمیں ان کی برکات سے فیض یاب فرمائے) اور نبی علیہ السلام خلفائے اربعہ صلی اللہ علیہ وسلم سمیت اپنے جسموں اور روحوں کے ساتھ ’’جوھرۃ الکمال‘‘ کی قرات کے وقت اور ہر نیکی کی مجلس میں اور جس مقام پر چاہیں تشریف لاتے ہیں۔ اس بات کا انکار صرف جاہل غنی طالب علم یا سرکش بدبخت حاسد ہی کرتے ہیں اور ہدایت تو اسی کو ملتی ہے جسے اللہ تعالیٰ کا ہدایت دے۔‘‘

عمر بن سعید فونی نے اپنے پیر احمد بن تیجانی کی بڑائی بیان کرنے میں انتہائی مبالغہ آمیزی سے کام لیا ہے اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ خاتم اولالیاء اور سید العارفین ہیں اور کوئی ولی کسی نبی سے ان کے واسطے کے بغیر کسی قسم کا فیض حاصل نہیں کرسکتا، لیکن اس ولی کو اس کا احساس نہیں ہوتا۔ چنانچہ وہ کہتا ہے:

’’چھتیسویں فصل ہمارے شیخ رضی اللہ عنہما کی فضیلت کے بارے میں اور اس چیز کے بیان میں کہ وہ خاتم الاولیاء‘ سید العارفین‘ صدیقین کے امام‘ قطبوں اور غوثوں کو فیض پہنچانے والے ہیں اور وہ قطب مکتوم اور برزخ مختوم ہیں جو نبیوں اور ولیوں کے درمیان واسطہ ہیں، کوئی ولی‘ خواہ عظیم شان والا ہو یا معمولی مقام ولا نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے حضرت صاحب رضی اللہ عنہما کے واسطہ کے بغیر فیض حاصل نہیں کرسکتا اور کیفیت یہ ہوتی ہے کہ اس ولی کو اس واسطہ کا احسا س نہیں ہوتا۔‘‘

ان الفاظ سے صریح شرک‘ کھلا کھلا جھوٹ اور ناجائز غلو بالکل ظاہر ہے۔ اس نے اپنے شیخ کو بعد کے زمانوں کے اولیاء تو ایک طرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم‘ تابعینj سے بھی بلند مرتبے والا ثابت کردیا ہے۔ حالانکہ یہ تین طبقات وہ ہیں جن کے متعلق جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ’’خیر القرون‘‘ ہونے کی گواہی دی ہے۔ اس کے بعد یہی مصنف کہتا ہے:

’’بعض افراد جنہیں علم سے کوئی تعلق نہیں اور نہ اہل اللہ کے فیض سے کوئی واسطہ ہے، وہ ہم پر دو اعتراض کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ جناب شیخ نے اپنی تعریف خو دکی ہے اور اپنے آپ کو پاک صاف قرار دیا ہے اور اس قسم کا دعویٰ کرنا ایک مذموم انبیائے کرام فیض یاب ہوتے ہیں اور انبیاء کرام کی ذات مقدسہ سے جو فیض جاری ہوتے ہیں، وہ سب میری ذات حاصل کرتی ہے اور تخلیق عالم سے قیامت تک تمام مخلوقات پر یہ فیض میری طرف سے تقسیم ہوتے ہیں۔ اس میں صحابہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ اس طرح شیخ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم سے افضل ثابت ہوتے ہیں اور یہ دعویٰ باطل ہے۔ اسی طرح (شیخ) کا یہ قول (بھی تنقید کی زد میں آتا ہے) کہ ’’تخلیق عالم کے قیامت سے قیامت تک کوئی ولی ہمارے سمندر کے علاوہ کہیں سے پی سکتا ہے، نہ اسے پلایا جاتاہے۔‘‘ اسی طرح حضرت صاحب کا یہ فرمان ہے کہ جب اللہ تمام مخلوق کو میدا ن حشر میں جمع کرے گا تو ایک منادی بلند آواز سے اعلان کرے گا، جسے میدان محشر میں موجود تمام لوگ سنیں گے ’’اے محشر والو! یہ اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی روح مبارک اور میری روح اس طرح ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی روح مبارک سے حاصل ہوتا ہے۔‘‘ اس کے علاوہ حضرت صاحب نے فرمایا: ’’میرے قدم آدم سے قیامت تک کے تمام اولیاء کی گردنوں پر ہیں۔‘‘ اسی طرح آپ نے یہ بھی فرمایا ’’آخرت میں اللہ کے ہاں ہمارا وہ مقام ہے جس تک کوئی ولی نہیں پہنچ سکتانہ اس کے قریب پہنچ سکتا ہے خواہ وہ عظیم الشان ولی ہو یا معمولی درجہ کا ولی۔ صحابہ سے لے کر قیام قیامت تک اولیاء میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو ہمارے مقام تک پہنچ سکے۔ اس کے علاوہ حضرت صاحب نے فرمایا: ’’سب لوگوں کی عمریں بے کار ضائع ہوئیں سوائے ان لوگوں کے جو ’’الفاتح لما أغلق‘‘ والا وظیفہ پڑھتے ہیں، انہیں دنیا اور آخرت کا نفع حاصل ہوگیا۔ اس وظیفہ میں وہی شخص اپنی عمر صرف کرتا ہے جو خوش نصیب ہو۔‘‘

علی حرازم نے اس مسئلہ پر بات کرتے ہوئے کہ تلاوت قرآن افضل ہے یادرود شریف۔ احمد تیجانی سے یہ قول نقل کیا ہے کہ تلاوت قرآن تو اس لحاظ سے افضل ہے کہ وہ اللہ کا کلام ہے اور ان علوم ومعارف اور آداب کے لحاظ سے بھی جو قرآن سے ظاہر ہوتے ہیں۔ اس کے بعد لکھتا ہے ’’یہ دہ حیثیتیں ایسی ہیں کہ ان کے لحاظ سے قرآن کی فضیلت تک وہی صاحب معرفت پہنچ سکتا ہے جس کے سامنے حقائق کے سمندر منکشف ہوچکے ہوں، وہ ہمیشہ ان کے گہرے پانی میں تیرتا رہتا ہے۔ اس مرتبہ والے کے حق میں ہی قرآن تمام اذکار سے افضل ہوتا ہے کیونکہ اسے دو فضیلتیں حاصل ہوتی ہیں۔ اس لئے کہ وہ براہ راست صریح طور پر اللہ تعالیٰ کی ذات مقدسہ سے قرآن سنتا ہے اور یہ کیفیت ہر وقت نہیں ہوتی بلکہ صرف اس وقت حاصل ہوتی ہے جب وہ عالم استغراق میں فنا فی اللہ کی کیفیت میں ہوتا ہے۔

تلاوت قرآن کا دوسرا درجہ اس سے ادنیٰ ہے۔ وہ یہ ہے کہ قرآن کے ظاہری معانی سے واقف ہو اور جب تلاوت کی جائے تو اس طرح توجہ سے سنے گویا کہ وہ اللہ سے براہ راست سن رہا ہے اور حدود کا خیال رکھے۔ تو یہ بھی پہلے درجے سے متصل ہی ہے لیکن اس سے ادنیٰ ہے۔

تیسرا درجہ ا س شخص کا ہے جو قرآن کے معانی ومطالب سے بالکل واقف نہیں، لیکن وہ اس کے الفاظ پڑھتا چلا جاتا ہے اسے ان علوم ومعارف کا کچھ پتہ نہیں ہوتا جو قرآن سے معلوم نہیں ہوتے ہیں۔ جس طرح اکثر عجمی عوام کا حال ہے کہ وہ عربی الفاظ کا مطلب نہیں جانتے۔ تاہم تلاوت کرنے ولا شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے اور توجہ سے اس کلام کو سنتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو قرآن سنا رہے ہیں جس کا مطلب وہ نہیں جانتا۔ یہ شخص بھی پہلے دو درجات کے ساتھ ہی متصل ہے۔ لیکن وہ ان سے بہت بہت کم درجے پر ہے۔

چوتھا درجہ اس شخص کا ہے جو قرآن پڑھتا ہے۔ خواہ مطلب سمجھتا ہو یا نہ سمجھتا ہو اور وہ اللہ کی نافرمانی کی جرأت رکھتا ہے، کسی برے کام سے نہیں رکتا۔ ایسے شخص کے حق میں تلاوت افضل نہیں، وہ جتنا زیادہ قرآن پڑھے گا، اسی قدر اس کے گناہوں میں اضافہ ہوگا اور اسی قدر اس کی تباہی زیادہ ہوگی۔ اس کی دلیل یہ فرمان الٰہی ہے:

﴿وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُکِّرَ بِاٰیٰتِ رَبِّہٖ فَاَعْرَضَ عَنْہَا وَ نَسِیَ مَا قَدَّمَتْ یَدٰہُ اِنَّا جَعَلْنَا عَلٰی قُلُوْبِہِمْ اَکِنَّۃً اَنْ یَّفْقَہُوْہُ وَ فِیْٓ اٰذَانِہِمْ وَقْرًا وَ اِنْ تَدْعُہُمْ اِلَی الْہُدٰی فَلَنْ یَّہْتَدُوْٓا اِذًا اَبَدًا﴾ (الکھف۱۸؍۵۷)

اور یہ فرمان الہٰی ہے:

﴿ وَیْلٌ لِّکُلِّ اَفَّاکٍ اَثِیْمٍ٭ یَّسْمَعُ اٰیٰتِ اللّٰہِ تُتْلٰی عَلَیْہِ ثُمَّ یُصِرُّ مُسْتَکْبِرًا کَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْہَا فَبَشِّرْہُ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ ٭ وَاِِذَا عَلِمَ مِنْ اٰیٰتِنَا شَیْئًا اتَّخَذَہَا ہُزُوًا اُوْلٰٓئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ  مِنْ وَّرَآۂ مْ جَہَنَّمُ وَلَا یُغْنِیْ عَنْہُمْ مَّا کَسَبُوْا شَیْئًا وَّلَا مَا اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَوْلِیَآئَ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ﴾ (الجاثیة۴۵؍۷۔۱۰)

اس کے بعد کہتا ہے: ’’جب یہ بات معلوم ہوگئی کہ عارف جانتا  ہے کہ عوام کے طریق میں ایک پردہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے اسرار کو چھپا رکھا ہے اور قرآن کے اسرار اور اہل خصوص کے ذوق کو عوام کے حس اور عقل کے اطوار سے ماوراء رکھا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کاارادہ یہی ہے کہ اسے مخلوقات میں سے صرف بلند خواص پر ہی ظاہر کیا جائے… اے بدکار بندے! اگر میں لوگوں کو تیری برائیوں پر مطلع کردوں تو تجھے سنگسار کردیں گے۔‘‘ انہوں نے کہا ’’تیری عزت نے کہا: ایسا نہ کرنا، تو وہ خاموش ہوگئے۔‘‘ یہاں تک وہ کلام ہے جو ہمیں شخ ابو العباس تیجانی نے خود لکھوایا۔ الجواہر کے صفحہ ۱۸۳ پر علی حرازم نے دوبارہ احمد تیجانی سے اللہ تعالیٰ کی (بقول اس کے) دلی لگی کاذکر کیا گیا ہے۔‘‘

علی حرازم لکھتا ہے ’’میں نے حضرت صاحب سے اس آیت کا مطلب پوچھا:

﴿مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیَانِ ٭بَیْنَہُمَا بَرْزَخٌ لَا یَبْغِیَانِ﴾ (الرحمن۵۵؍۱۹۔۲۰)

’’اس نے دو سمندر چلائے جو ملتے ہیں اور ان کے درمیان آڑ ہے جس کی بنا پر وہ حد سے تجاوز نہیں کرتے۔‘‘

حضرت صاحب نے جواب میں ارشاد فرمایا: ’’دو سمندروں سے مراد ایک تو بحر الوہیت اور وجود مطلق کا سمندر ہے اور دوسرا مخلوقات کا سمندر ہے۔ اسی پر ’’کن‘‘ کا کلمہ واقع ہوا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم  ان دونوں کے درمیان برزخ (آڑ‘ رکاوٹ‘ پردہ) ہیں اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی برزخیت نہ ہوتی تو جلال ذا ت الٰہی کی ہیبت سے بحر مخلوقات مکمل جل جاتا۔‘‘ حضرت صاحب نے فرمایا ’’بحر مخلوقات ہی بحر اسماء وصفات ہے۔ کائنات میں جو ذرہ بھی نظر آتا ہے اس پر اللہ کی صفات میں سے کسی اسم یا صفت کا ظہور ہے اور بحر الوہیت سے مراد ذات مطلق کا بحر ہے جس کی کیفیت بیان نہیں کی جاسکتی اور الفاظ اس کا اظہار نہیں کرسکتے۔ یہ دونوں سمندر آپس میں ملتے ہیں کیونکہ ان کے درمیان انتہائی قرب واقع ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے:

﴿وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِِلَیْہِ مِنْکُمْ وَلٰکِنْ لَا تُبْصِرُوْنَ﴾ (الواقعة۵۶؍۸۵)

’’تم سے زیادہ ہم اس مرنے والے کے قریب ہوتے ہیں لیکن تم نہیں دیکھتے۔‘‘

لیکن یہ دونوں سمندر یکجان نہیں ہوتے۔ الوہیت خلق میں نہیں مل جاتی اور خلق الوہیت میں نہیں جاملتی‘ ان میں سے کوئی بھی اپنی حد سے تجاوز کرکے دوسرے کی حدود میں داخل نہیں ہوتا کیونکہ ان کے مابین ایک رکاوٹ ہے اور یہی برزخیت عظمیٰ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا مقام ہے۔ تمام کائنا ت اس لئے ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حجابیت کے تحت موجود ہے اور جلال الٰہی کی تجلیات سے نبی علیہ السلام کے پردے میں ہے۔ اگر کائنات بلا حجاب ظاہر ہوجائے تو آنکھ جھپکنے میں سب کچھ جل کر عدم محض رہ جائے۔ تو الوہیت اپنی حدود میں قائم ہے اور مخلوقات اپنی حدود میں۔ یہ دونوں آپس میں ملتے ہیں اور نہ مختلط ہوتے ہیں کیونکہ ان کے درمیان برزخیت عظمیٰ حائل ہے۔ ’’وہ تجاوز نہیں کرتے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی دوسرے سے نہیں جاملتا۔‘‘

یہاں تک حضرت صاحب کا کلام خود ان کے الفاظ میں ہے جو انہوں نے ہمیں زبانی لکھوایا اور میں نے حضرت صاحب سے نبی علیہ السلام کے دائرہ کے متعلق سوال کیا تو حضرت صاحب نے فرمایا ’’وہ سعادت کا دائرہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق ہے:

﴿اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآئَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَ لَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ﴾ (یونس۱۰؍۶۲)

’’خبردار! اللہ کے ولیوں پر نہ کوئی خوف ہے نہ وہ غمگین ہوں گے۔‘‘

بوصیری نے فرمایا: ’’ولن تری من غیر منتصر‘‘ ’’اس کا مطلب ہے کہ جو کوئی نبی علیہ السلام سے مدد نہیں لیتا، اللہ کی ولایت میں اس کا کوئی حصہ نہیں…‘‘ یہ ایک اور آفت ہے۔ آیات قرآنی سے مذاق اور تحریف معنوی کی آفت۔ یعنی آیات کی ایسی تشریح جس کی تائید عربی زبان سے بھی نہیں ہوتی‘ عقل سلیم اس سے انکار کرتی ہے اور عقل مند ایسی باتوں کو ایک خندۂ  استہزاء کا مستحق سمجھتے ہیں۔

عمر بن سعید فوتی لکھتا ہے ’’ایک رات شیخ احمد تیجانی نے مجلس میں‘‘ سید محمد غالی کہاں ہیں؟ آپ کے ساتھیوں نے بلند آواز سے پکارنا شروع کردیا ’’سید محمد غالی کہاں ہیں؟ جس طرح لوگوں میں رواج ہے کہ جب کوئی بزرگ کسی کو بلاتا ہے تو وہ آوازیں دینے لگتے ہیں۔ جب سید محمد غالی شیخ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو شیخ رحمہ اللہ نے فرمایا ’’میرے یہ دونوں قدم اللہ کے ہر ولی کی گردن پر ہیں۔‘‘ سید محمد غالی حضرت صاحب سے نہیں ڈرتے تھے کیونکہ آپ کے بڑے احباب اور امراء میں سے تھے۔ انہوں نے عرض کی ’’حضور! آپ صحو اور بقا کی کیفیت میں ہیں یا سکر اور فنا کی حالت میں؟ حضرت صاحب نے فرمایا ’’الحمد للہ! میں صحو اور بقا کی کیفیت اور پوری عقل کی حالت میں ہوں۔‘‘ انہوں نے عرض کی: ’’آپ نے رو وہی بات ارشاد فرمادی جو سیدی عبدالقادر رضی اللہ عنہما نے ارشاد فرمائی تھی کہ: ’’میرا یہ قدم اللہ کے ہر ولی کی گردن پر ہے۔‘‘ حضرت صاحب نے فرمایا: ’’انہوں نے بھی صحیح فرمایا تھا‘‘ ان کامطلب اپنے زمانے کے اولیاء سے تھا۔ لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ میرے یہ دونوں قدم آدم علیہ السلام سے نفخ صور (قیام قیامۃ) تک ہر ولی کی گردن پر ہیں۔‘‘ میں نے عرض کی: ’’آقا! اگر آپ کے بعد کسی اور نے بھی ایسی بات کہی تو پھر آپ کا کیا ارشاد ہے؟ تو حضرت صاحب نے فرمایا: میرے بعد کوئی شخص یہ بات نہیں کہے گا۔‘‘ میں نے عرض کی: ’’آقا! آپ نے تو اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت کو محدود کر دیا۔ کیا اللہ اس بات پر قادر نہیں کہ کسی کو آپ سے بھی زیادہ فیض‘ تجلیات‘ انعامات‘ معرفت‘ علوم‘ اسرار، ترقیاں اور احوال عطا فرمادے؟ تو کیا آپ نے فرمایا: کیوں نہیں؟ وہ اس پر قادر ہے بلکہ اس سے زیادہ قدرت رکھتا ہے لیکن وہ ایسا نہیں کرے گا، کیونکہ اس نے ایسا کرنے کا ارادہ نہیں فرمایا۔ کیا اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر نہیں کہ کسی شخص کو نبی بنا کر مخلوق کی طرف مبعوث فرمادے اور اسے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  سے زیادہ مقامات وانعامات دے دے؟ میں نے عرض کی وہ قادر ہے لیکن وہ ایسا نہیں کرے گا کیونکہ ازل سے اس نے یہ ارادہ نہیں فرمایا۔‘‘ اس پر حضرت صاحب نے فرمایا (اللہ ان سے راضی ہو اور انہیں راضی کرے اور ان کے طفیل ہم سے راضی ہوجائے)‘‘ تو یہ مسئلہ بھی اسی طرح ہے،ازل میں اللہ نے اس کا ارادہ نہیں فرمایا اور اللہ کے علم کے مطابق ایسا نہیں ہوگا۔‘‘

اگر آپ یہ سوال کریں کہ قطب مکتوم کی برزخیت کی کیا صورت ہے، جسے اہل معرفت‘ صدیقین‘ افراد الاحباب اور جواہر الاقطاب حضرات جواہرالجواہر اور برزخ البرازخ والا کابر کے نام سے یاد کرتے ہیں، تو جواب یہ ہے (اللہ تعال مجھے اور تجھے وہ عمل کرنے کی توفیق بخشے جنہیں وہ پسند کرتا اور ان سے راضی کرتاہے) کہ فیض حاصل کرنے والی حضوری کی سات (قسمیں یادرجات) ہیں:

(۱)  حضرۃ الحقیقۃ الأحمدیۃ:  یہ بلندیوں کے جواہر میں اللہ کا ایک غیب ہے۔ اس میں جو معارف‘ علوم‘ اسرار، فیوض‘ تجلات‘ احوال واخلاق ہیں، ان کا کسی کو علم نہیں، اس میں سے کسی نے کچھ نہیں چکھا حتیٰ کہ رسول اور نبی بھی اس سے مشرف نہیں ہوئے۔ یہ مقام صرف اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے لئے خاص ہے۔ کیونکہ یہ بلند ترین مقام ہے۔

(۲)  حضرت الحقیقۃ المحمدیۃ: جواہر المعانی می ں ہے کہ تمام نبیوں اور رسولوں کے مدارک اور تمام ملائکہ اور مقربین اور تمام اقطاب اور صدیقین اور تمام اولیاء اور اہل معرفت کے مدارک اس سے ہیں… تمام موجودات کو جو بھی علوم‘ معرفتیں، فیض تجلیات‘ ترقیاں، احوال‘ مقامات اور اخلاق حاصل ہوئے وہ سب کے سب حقیقت محمدیہ کا فیض ہے۔

(۳)  حضوری کاوہ مقام جس میں اپنے اپنے ذوق اور مرتبہ کے مطابق تمام انبیاء کرام علیہ السلام ہیں۔ اس حضوری والے حضرات وہ ہیں جو حضرۃ الحقیقۃ المحمدیہ سے جاری ہونے والے فیض کو حاصل کرتے ہیں۔ جس طرح ہمارے شیخ (تیجانی) نے اس حضوری و الوں کو اشارہ کرے ہوئے فرمایا ہے: وہ فیض جو ذات وجود صلی اللہ علیہ وسلم  سے جاری ہوتے ہیں، انہیں انبیائے کرام کی ذاتیں حاصل کرتی ہیں۔لیکن انبیاء علیہ السلام کے ساتھ ساتھ خاتم الاولیاء کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ خصوصی فیض حاصل ہوتاہے۔ اگرچہ اسے (خاتم الاولیاء کو) اس کا شعور طور پر احساس نہیں ہوتا۔ جیسے کہ آگے تفصیل آئے گی۔ان شاء اللہ۔

(۴)  خاتم الاولیاء کا مقام حضوری:آپ انبیائے کرام سے جاری ہونے والے فیض کو حاصل کرتے ہیں۔ کیونکہ حضرت صاحب ہی ’’برزخ البرازخ‘‘ کی ذات سے جاری ہونے والے تمام فیض سے میری ذات فیض یاب ہوتی ہے اور پھر ابتدائے آفرینش سے قیام قیامت تک کی تمام مخلوقات پر یہ فیض مجھ پر سے تقسیم ہوتاہے اور مجھے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  سے زبانی طور پر بلاواسطہ ایسے خاص علوم حاصل ہوئے ہیں جنہیں صرف اللہ ہی جانتا ہے‘‘ نیز (تیجانی نے) فرمایا: ’’میں اولیاء کا سردار ہوں جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم  انبیاء کے سردار تھے۔‘‘ نیز فرمایا: ’’ابتدائے آفرینش سے قیام قیامت تک ہر ولی صرف ہمارے سمندر ہی کا پانی پیتا ہے اور اسی سے اسے پلایا جاتا ہے۔ نیز فرمایا جب اللہ تعالیٰ میدان حشر میں تمام مخلوق کو جمع کرے گا، تو ایک منادی بلند آواز سے اعلان کرے گا جسے محشر میں موجود ہر شخص سنے گا: ’’اے میدان حشر والو! یہ تمہارا وہ امام ہے جس سے تمہیں فیض حاصل ہوتاتھا اور حضرت صاحب (تیجانی) نے اپنی شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی کو ملا کر اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’میری روح اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی روح اس طرح ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی روح رسولوں اور نبیوں کو فیض پہنچاتی ہے۔ اور میری روح ازل سے ابد تک کے تمام اولیاء‘ اصحاب معرفت اور قطبوں کو فیض پہنچاتی ہے‘‘ اور فرمایا: ’القطب المکتوم انبیاء اور اولیاء کے درمیان واسطہ ہوتا ہے، اللہ کا ہر ولی خواہ وہ عظیم شان کا حامل ہو، یا معمولی مقام رکھتا ہو نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے جو فیض بھی حاصل کرتاہے وہ اس (قطب مکتوم) کے واسطے سے ہی حاصل ہوتا ہے اور اسے (فیض یاب ہونے والے کو) اس کا احساس نہیں ہوتا اور حضرت صاحب (تیجانی) کو جو خاص فیص ہوتاہے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے براہ راست حاصل ہوتاہے اور اس فیض کی اطلاع کسی نبی کو بھی نہیں ہوتی۔ کیونکہ انبیاء کرام جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے فیض یاب ہوتے ہیں تو بھی وہ (تیجانی خاتم الاولیاء) ان کے ساتھ ان کی فیض یابی میں شریک ہوتے ہیں۔‘‘

(۵)  اس سلسلہ والوں کو حضوری جو صرف انہی کے ساتھ خاص ہے۔ اس کی طرف حضرت نہ یہ کہہ کر اشارہ کیا ہے: ’’اگر اکابر قطبوں کو معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ نے اس طریقہ (تیجانی سلسلۂ  تصوف) والوں کے لئے کیا کچھ تیار کر رکھا ہے تو وہ رورو کر کہیں: ’’یا رب! تو نے ہمیں تو کچھ بھی نہیں دیا۔‘‘ نیز حضرت (تیجانی) نے فرمایا: ’’ہمارے مریدوں کے درجات کی امید اور خواہش کوئی ولی تو درکنار قطب بھی نہیں کرسکتے، سوائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے۔‘‘ نیز حضرت صاحب نے فرمایا: ’’ہمارا طریقہ ہر طریقے پر داخل ہو کر اسے کالعدم کردیتا ہے، ہماری مہر ہر مہر پر لگ جاتی ہے لیکن ہماری مہر پر کوئی مہر نہیں لگ سکتی اور فرمایا: ’’جو شخص کا کوئی وظیفہ چھوڑ دیتا ہے، وہ دنیا اورآخرت میں بے خوف رہے گا، اسے اللہ کی طرف سے کسی نقصان یا زوال کا خطرہ نہ ہوگا نہ رسول کی طرف سے نہ پیر کی طرف سے خواہ اسکا پیر کوئی بھی ہو، زندہ ہو یا فوت ہوچکا ہو، (اس کے برعکس) جو شخص ہماری جماعت میں داخل ہوا، پھر پیچھے ہٹ گیا اور کسی اور جماعت میں داخل ہوگیا، اس پر دنیا کی مصیبتیں نازل ہوں گی اور آخرت میں بھی‘ وہ کبھی فلاح نہیں پائے گا۔‘‘

مصنف عرض کرتاہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس فصل کی ابتداء میں یہ ثابت ہوچکا ہے کہ اس سلسلہ کے بانی (تیجانی) وہ مہر ہیں جن سے تمام اولیاء‘ اہل معرفت‘ صدیقین اور غوث وغیرہ فیض حاصل کرتے ہیں اور جو شخص فیض حاصل کرنے والے کو چھوڑ کر فیض پہنچانے والے کی طرف رجوع کرے وہ کسی ملامت کا مستحق نہیں، نہ اسے کوئی خوف وخطرہ ہے، بخلاف اس کے جو فیض پہنچانے والے کو چھوڑ کر فیض حاصل کر نے والے سے رجوع کرے‘‘ اور حضرت صاحب نے فرمایا: ’’مجھ اکیلے کے سوا کسی شخص کو یہ شرف حاصل نہیں کہ اس کے تمام مرید بغیر حساب وکتاب کے اور بغیر کوئی سزا بھگتے کہا گیا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے جو گارنٹی دی ہے وہ ایسی چیز ہے جس کی وضاحت کی مجھے اجازت نہیں۔ وہ آخرت میں ہی اسے دیکھے گا اور جانے گا۔‘‘ مصنف عرض کرتاہے: ’’جو حضوری ہمارے شیوخ یعنی دوسے سلسلۂ  ہائے تصوف کے اولیاء کرام کو حاصل ہے، اس سے حضرت (تیجانی) کے طریقہ کی حضوری کی فضیلت کی وجہ بالکل واضح ہے۔ وہ یہ ہے کہ سب سے پہلے اس سلسلہ والوں کو وہ فیض حاصل ہوتاہے جو حضرت صاحب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  اور دیگر انبیاء علیہ السلام سے حاصل کرتے ہیں۔ اس وجہ سے اس سلسلے کے تمام افراد آخرت میں اللہ کیہ ہاں اکابر قطب حضرات سے بھی بلند درجہ والے ہیں، اگرچہ ظاہری طور پر ان میں سے بعض افراد محبوب عوام میں شمار ہیں۔

(۶)  حضوری کا وہ مقام جس میں تمام ا ولیائے کرام ہیں، اللہ ان سب سے راضی ہوا اور یہ مقام خاتم اکبر کی حضوری سے وہ سب کچھ حاصل کرتا ہے جو انہیں ملا ہے۔ ہمارے شیخ احمد تیجانی (رضی اللہ عنہ وارضاہ عنابہ) کا فرمان اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ جو شیخ نے جواہرالمعانی میں ارشاد فرمایا ہے: ’’اہل اللہ میں سے ہر ایک کا ایک حضوری کامقام ہوتاہے جس میں ا سکے ساتھ کوئی شریک نہیں ہوتا۔‘‘

(۷)  حضوری کا وہ مقام جس میں ان کے شاگردان گرامی موجود ہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلددوم -صفحہ 211

محدث فتویٰ

تبصرے