السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سوال کا خلاصہ یہ ہے کہ مسمی عیسیٰ جبریل یہ خواہش رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جو کچھ نازل فرمایا ہے اس کا زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرے اور وہ گذارش کرتا ہے کہ اسے بتایا جائے کہ وہ وظیفہ جو تیجانی سلسلہ کے لوگ کرتے ہیں درست ہے یا نہیں؟ اور کیا سلسلہ تیجانیہ خود بھی صحیح ہے یا نہیں؟ کیونکہ اس نے اسلامی مدارس کے بہت سے افراد کو اس کی مخالفت کرتے سنا ہے۔ تیجانی لوگ یہ وظیفہ مغرب کی نمازکے بعد کرتے ہیں۔ وہ اس طرح کہ مسجد میں ایک سفید کپڑا بچھا لیتے ہیں اور اس کے ارد گرد بیٹھ جاتے ہیں۔ پھر سودفعہ لا الہ الا اللہ اور دوسرے دو کلمات پڑھتے ہیں۔ گذارش ہے کہ حق واضح کرکے سائل کی مدد فرمائی جائے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شریعت اسلامیہ نے اللہ تعالیٰ کے ذکر کی بہت ترغیب دلائی ہے اور بتایا ہے کہ یہ دلوں کی زندگی‘ اطمینان قلب اور شرح صدر کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوا اللّٰہَ ذِکْرًا کَثِیْرًا٭وَّ سَبِّحُوْہُ بُکْرَۃً وَّ اَصِیْلًا﴾ (الاحزاب۳۳؍۴۱۔۴۲)
’’اے اہل ایمان! اللہ کو بہت زیادہ یاد کیا کرو اور صبح وشام اس کی پاکیزگی بیان کیا کرو۔‘‘
اور فرمایا:
﴿اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوْبُہُمْ بِذِکْرِ اللّٰہِ اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ﴾ (الرعد۱۳؍۲۸)
’’(اللہ انہیں ہدایت دیتا ہے) جو ایمان لائے اور ان کے دلوں کو اللہ کی یاد سے اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ یاد رکھو! اللہ کے ذکر ہی سے دلوں کو اطمینان ملتا ہے۔‘‘
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(مَثَلُ الَّذِي یَذْکُرُ رَبَّہُ وَالَّذِي لاَ یَذْکُرُ مِثْلُ الْحَیِّ وَالْمَیِّتِ)
’’اللہ کی یاد کرنے والے اور اللہ کو یاد نہ نے کی مثال ایسے ہے جیسے زندہ اور مردہ۔‘‘[1]
اسی طرح قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں ذکر اللہ کا حکم اور اس کی ترغیب بالاجمال بھی وارد ہے اور تفصیل سے بھی۔ چنانچہ قرآن مجید نے وضاحت کی ہے کہ دل سے اللہ کاذکر اس طرح ہوتا ہے کہ اس کی عظمت‘ ہیبت‘ شان اور وقار کا احساس کیا جائے، اس سے خوف اور اس کی طرح دل کی توبہ اور رغبت ہو اور اللہ تعالیٰ کا ذکر اس سے ڈرتے ہوئے، پوشیدہ طور پر، آواز بلند کئے بغیر دن کے ابتدائی اور آخری حصے میں ہونا چاہئے اور اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ نماز اس کا سب سے عظیم ذکر ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:
﴿حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی وَ قُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِیْن٭فَاِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا اَوْ رُکْبَانًا فَاِذَآ اَمِنْتُمْ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَمَا عَلَّمَکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْن﴾ (البقرۃ۲؍۲۳۸۔۲۳۹)
’’نمازوں کی حفاظت کرو اور درمیانی نماز کی (زیادہ خیال سے حفاظت کرو) اور اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی وادب سے کھڑے ہوا کرو۔ پھر اگر تمہیں (دشمن کے حملے کا) خطرہ ہو تو پیدل چلتے ہوئے یا سواری پر (نماز پڑھ لو،) پھر جب تمہیں امن حاصل ہوجائے (اور خطرہ دور ہوجائے) تو اللہ کو یاد کرو جس طرح اس نے تمہیں سکھایا ہے جو کچھ تمہیں معلوم نہیں تھا۔‘‘
مزید ارشاد گرامی ہے:
﴿فَاِذَاقَضَیْتُمُ الصَّلٰوۃَ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ قِیٰمًاوَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰی جُنُوْبِکُمْ فَاِذَا اطْمَاْنَنْتُمْ فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ ﴾ (النساء۴؍۱۰۳)
’’پھر جب تم (نماز خوف کے طریقے پر) نماز ادا کرچکو تو کھڑے، بیٹھے یا پہلو لیٹے ہوئے (ہر حال میں) اللہ کو یاد کرو۔ پھر جب تمہیں اطمینان حاصل ہوجائے تو (حسب معمول) نماز قائم کرو۔‘‘
نماز میں تلاوت بھی ہے، تکبیر وتحلیل بھی‘ تسبیح تمحید بھی ہے اور دعا بھی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَ اذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَة وَّ دُوْنَ الْجَہْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ وَ لَا تَکُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْن﴾ (الاعراف۷؍۲۰۵)
’’اپنے رب کو صبح وشام عاجزی اور خوف کے ساتھ‘ بلند آواز کئے بغیر آہستہ آہستہ اپنے دل میں یاد کرو غافلوں میں سے نہ ہوجانا۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور عمل سے اذکار کی قسمیں، اوقات اور کیفیات معلوم ہوتی ہیں۔ چنانچہ احادیث میں صبح اور شام کے اذکار، مشکل اور مصیبت کے موقع کے لئے اذکار، سونے اور جاگنے کے وقت ‘ سفر اور واپسی کے وقت کے اذکار اور اسی طرح دیگر بہت سے اذکار اور دعائیں ہیں۔ ان دعاؤں کے الفاظ اور کیفیات کا بھی تعین کر دیا گیا ہے۔ مثلاً جس حدیث میں ان سات افراد کا ذکر ہے جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے سائے میں جگہ دے گا جس دن اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں ہوگا، اس حدیث میں ان سات افراد میں سے ایک شخص وہ بھی ہے جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ لہٰذا جو شخص قرآن وسنت میں مذکور ذکر کی قسمیوں اور اوقات وکیفیات کے مطابق ا للہ کا ذکر کرتا ہے اس نے اللہ تعالیٰ کے حکم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی کی اتباع کی اور وہ اجروثواب کا بھی مستحق ہوگیا۔ اس کے برعکس جو شخص مسنون اذکار کے الفاظ میں کمی بیشی یا تغیروتبدل کرتا ہے، یا اس کی کیفیت اور طریقے میں ردوبدل کرتاہے، یا ایسی کیفات کی پابندی کرتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائیں اور مطلق کو مقید یا مقید کو مطلق کردیتا ہے اور ذکر میں ایسا طریقہ لازم کرلیتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ یا صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم اور تابعین وتبع تابعین کے مبارک زمانوں میں رائج نہیں تھا، وہ غلط کام کرتا ہے اور بدعت پر عمل پیرا ہے، لہٰذا وہ اجر وثواب سے محروم رہے گا اوران لوگوں میں شامل ہوجائے گا جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ان کی سعی وکوشش رائیگاں ہوگئی اور وہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ اچھا کام کر رہے ہیں۔ انہی غیر شرعی پابندیوں میں سے تیجانیہ وغیرہ اصحاب طریقت کا یہ رواج ہے کہ وہ نماز مغرب کے بعد سفید کپڑا بچھا کر اس کے گرد بیٹھ جاتے ہیں اور الا الہ الا اللہ وغیرہ کا ذکر کرتے ہیں۔ ذکر کرنا ایک شرعی عمل ہے اور لا الہ الا اللہ تمام انبیاء کا افضل ترین ذکر ہے۔ لہٰذا یہ ذکر انتہائی فضیلت کا حامل ہے لیکن سفید کپڑا بچھانے اور اس کے ارد گرد جمع ہونے اور م غرب کے بعد وقت خاص کرنے کی پابندی اور اجتماعی طور پر یہ ذکر کرنا، یہی کام بدعت ہیں جو لوگوں نے خود ایجاد کئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پابندیاں نہیں لگائیں۔ اچھا عمل وہ ہوتاہے جس میں سنت کی پیروی ہو اور بدترین عمل وہ ہے جو ایجاد بندہ ہو۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
(عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّة الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِینَ مِنْ بَعْدِي وَاِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْاُمُورِ فَأِنَّ کُلَّ مُحْدَثَة بِدْعَة)
’’میرے طریقے اور میرے بعد آنے والے خلفائے راشدین کے طریقے کا التزام کرو اور (دین میں) نئے نئے کامو ں سے بچو۔ کیونکہ (دین میں ایجاد کیا ہوا) ہر نیا کام بدعت ہے۔‘‘
نیز فرمایا:
(مَنْ اَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا ھٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَھُوَ رَدٌّ)
’’جس نے ہمارے ا س کام (دین) میں ایسی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں تو وہ ناقابل قبول ہے۔‘‘
اس قسم کی بدعت کی ایک اور مثال یہ ہے کہ بعض لوگ نماز فجر سے پہلے یا بعد یا عشاء کے بعد ایسے وظیفے پڑھنے کے لئے جمع ہوتے ہیں جو انہوں نے خود ہی گھڑے ہیں۔ یا ایسی مکروہ کیفیات اور سرتال کے ساتھ ذکر کرتے ہیں کہ وہ ذکر سے زیادہ ایک کھیل یا ڈرامہ محسوس کرتاہے۔ اسی طرح لفظ ’’ھو‘‘ یا ’’آہ‘‘ کے ساتھ ذکر کرنابھی غلط ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے نہیں۔ پہلالفظ تو ضمیر غائب کا صیغہ ہے اور دوسرا تکلیف کے موقع پر منہ سے نکلنے والا لفظ ہے۔انہیں بطور ذکر پڑھنا ایک بری بدعت ہے۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلَّمَ
اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن بازفتویٰ (۲۱۳۹)
[1] صحیح بخاری حدیث نمبر: ۶۴۰۷۔ صحیح مسلم حدیث نمبر: ۷۷۹۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب