سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(182) یہ رسومات بدعات اور غلو کے ذیل میں آتی ہیں

  • 8157
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1325

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

یہاں تنزانیہ میں ہم لوگ کھانے کی دعوت کرتے ہیں اور شہر میں ایک خاص مقام پر جمع ہوتے ہیں اور کہتے ہیں ’’یہ زیارت طریقہ قادریہ کے شیخ عبدالقادر جیلانی کی طرف سے ہے۔‘‘ تو کیا یہ کام بدعتہے یا سنت ہے؟ اور کیا اس میں کوئی حرج یا گناہ کی بات ہے؟ کیونکہ ہم کسی مسجد کو اس وقت آباد نہیں کرتے جب تک یہ ’’زیارت‘‘ ادا نہ کر لی جائے اور میلاد نہ پڑھ لیا جائے یعنی اس مقصد کے لئے باقاعدہ ایک بڑی تقریب منعقد کی جاتی ہے تو کیا ان کاموں میں کوئی حرج ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف صالحینj کے دور میں کسی فوت ہونے والے نیک آدمی کے لئے اس طرح کی دعوتیں نہیں ہوتی تھیں، نہ کسی صحابی یا بعد کے بزرگ نے حیات طیبہ کے دوران یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد میلاد منایا نہ آپ کے نام سے کھانے کا اہتمام کیا۔ لہٰذا جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  یا کسی اور ولی یا لیڈر کے یوم پیدائش پر تقریب منعقد کرنااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی میلاد کے متعلق جو کچھ لکھا گیا ہے وہ پڑھنا، یا ولادت نبوی کے ذکر کے وقت کھڑا ہوجانا اور یہ سمجھنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  تشریف لے آئے ہیں اور ولادت نبوی کی خوشی میں یا شیخ عبدالقادر  رحمہ اللہ  یا دیگر بزرگوں کی ولادت کی خوشی میں تقریبات منعقد کرانا اور کھانا کھلانا یہ سب غلط کام ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے احترام اور محبت کا طریقہ تو یہ ہے کہ آپ کی اتباع کی جائے اور آپ کی شریعت پر عمل کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاللّٰہُ  غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ (آل عمران۳؍۔۳۱)

’’(اے پیغمبر!) فرمادیجئے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف کردے گااور اللہ تعالیٰ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔‘‘

بزرگوں کے احترام اور ان سے محبت کا طریقہ بھی یہی ہے کہ ان کے جو کام جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت اور طریقے کے مطابق ہوں، ان میں ان کی پیروی کی جائے۔

لہٰذا مسلمانوں کا فرض ہے کہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے طریقے پر عمل پیرا ہوں، ان کے نقش قدم پر چلیں، بزرگوں کی حد سے زیادہ تعریف او رخلو سے پرہیز کریں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

(لاَ تُطْرُوْنِي کَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَی ابْنَ مَرْیَمَ فَأِنَّمَا أَنَا عَبْدٌ فَقُولُوا عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُولُہُ)

’’مجھے حد سے نہ بڑھانا جس طرح انصاریٰ نے حضرت عیسیٰ ابن مریم  علیہ السلام کو حد سے بڑھادیا تھا۔ میں صرف ایک بندہ ہوں لہٰذا اللہ کا بندہ اور رسول ہی کہو۔‘‘[1]

اور فرمایا:

(أِیَّاکُمْ وَالْغُلُوَِّ فِی الدِّینِ فَأِنَّمَا أَھْلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمُ الغُلُوُّ)

’’دین میں غلو سے بچو۔ تم سے پہلے لوگوں کو غلو نے ہی تباہ کیا تھا۔‘‘

وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلَّمَ

 اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن بازفتویٰ (۳۸۶۷)


[1]     صحیح بخاری  حدیث نمبر: ۳۴۴۵، ۶۸۳۰۔ مسند احمد ج: ۱،ص: ۲۳، ۳۴، ۴۷، ۵۵۔ مسند دارمی حدیث نمبر : ۲۷۸۷

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلددوم -صفحہ 191

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ