سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(177) اہل تصوف کی عبادات میں بکثرت بدعات ہوتی ہیں

  • 8152
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1850

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آج کل صوفیہ کے سلسلے بکثرت پائے جاتے ہیں، مثلاً نقشبندیہ اور قادریہ،ہمارے ہاں مراکش میں جیلانیہ،تجانیہ،ترقاویہ،وازانیہ،دلائیہ،ناصریہ،علویہ،کتانیہ اور دیگر بہت سے ناموں سے سلسلے موجود ہیں۔ میں نے ان کے اور ادووظائف دیکھے تو باہم ملتے جلتے ہیں۔ سب کے ہاں صبح کے اوراد میں سوبار استغفار اور سوبار درود شریف (مختلف الفاظ کے ساتھ) اور سوبار لا الہ الا اللہ اور شام کو بھی اسی قسم کے وظیفے میں، اس کے ساتھ نماز بروقت ادا کرنے کی ترغیب ہے۔ کیونکہ جو شخص ان سے وظیفہ حاصل کرتاہے اس کے لئے نماز باجماعت کی پابندی ایک لازمی شرط ہے۔ لیکن اخوان المسلمون کے بعض علماء کہتے ہیں کہ صوفی طرق میں شامل ہونے والا شخص گمراہ،بدعتی اور مشرک ہے، کیونکہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں صوفیانہ سلسلے اور طریقے موجود نہیں تھے۔ اس لئے میں آپ سے تسلی بخش جواب چاہتاہوں، کیونکہ ’’مشرک‘‘ کا لفظ بہت سخت ہے اور مشرک پر تو جنت حرام ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صوفیانہ سلسلہ کے مشائخ پر زہد اور عبادت کا رنگ غالب ہے۔ لیکن ان کی عبادتوں میں بکثرت بدعتیں اور خرافات موجودہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کے منفرد نام کا ذکر کرنا مثلاً (اللہ۔ حی۔ قیوم) یا ضمیر غائب کے ساتھ اس کا ذکر کرنا۔ ھو۔ھو۔ھو…)یا ایسے نام سے ذکر کرنا جسے اللہ تعا لیٰ نے اپنا نام بیان نہیں فرمایا مثلاً (آہ۔آہ۔آہ) اس کے ساتھ ساھت وہ جھومتے ہیں، کبھی نیچے جھکتے ہیں، تالیاں بجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ شعروں کے الفاظ یہا ذکر کے کلمات کے حرکات وسکنات کو منضبط کرنے کے لئے بسا اوقات ساز بھی بجاتے ہیں۔ یہ تمام کام ایسے ہیں جو رسولاللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے قولاً ثابت ہیں نہ عملاً اور نہ خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم ان سے واقف تھے۔ بلکہ یہ سب نو ایجاد کام ہیں۔ حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے۔ ’’ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک بلیغ وعظ ارشاد فرمایا، جس سے ہمارے دلوں میں خشیت پیدا ہوئی اور آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے۔ ہم نے عرض کی ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ تو ایسا لگتا ہے جیسے الوداع کہتے وقت نصیحتیں کی جاتی ہیں۔ تو ہمیں (کوئی خاص) وصیت فرمائیے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:

(أُوُصِیکُمْ بِتَقْویٰ اللّٰہِ وَالسَّمِیْعِ وَالطَّاعَة وَأِنْ کَانَ عَبْداً حَبَشِیاًّ، وَأِنَّہُ مَنْ یَعِشْ مِنْکُمْ فَیَسَرَی اختِلاَفاً کَثِیْراً فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّة الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِینَ عَضُوا عَلَیْھَا بِالنَّوَاجِذِ وَاِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَأِنْ کُلَّ مُحْدَثَة بِدْعَة وَکُلَّ بِدْعَة ضَلاَلَة)

’’میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں اور (حکم) سن کر تعمیل کرنے کی (وصیت کرتاہوں) اگرچہ ایک خلافائے راشدین کی سنت پر قائم رہنا۔ اسے داڑھوں سے (خوب مضبوطی سے) پکڑنا اور نئے نکالے جانے والے کاموں سے بچنا۔ کیونکہ ہر نیا نکالا جانے والا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام ابو داؤد اور امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے اسے ’’حسن صحیح‘‘ قراردیا ہے۔ اسی طرح سوال میں استغفار اور درود شریف کے ورد کے متعلق جو سوال کیا گیا ہے، اس کا بھی یہی جواب ہے۔ وہ اگرچہ بامعنی کلام ہے اور وہ بنیادی طور پر کار ثواب اور شرعی عبادت ہے۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے یہ ثابت نہیں کہ اس کے لئے صبح اور شام کا وقت مقرر کیا جائے یا ان اوقات میں ان کی ایک تعداد مقرر لی جائے جس میں کمی بیشی نہ کی جائے۔ یا شیخ اپنے مرید سے کسی خاص ذکر کا وعدہ لے، عبادت میں اس طرح کی تخصیص بدعت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

(مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا ھٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَھُوَ رَدٌّ)

’’جس نے ہمارے اس دین میں اسی چیز ایجاد کی جو اس میں نہیں تھی تو وہ ناقابل قبول ہے۔‘‘

اس حدیث کو بخاری اور مسلم رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے۔ صحیح مسلم کی ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:

(مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَیْسَ عَلَیْہِ أَمْرُنَا فَھُوَردٌّ)

’’جس نے کوئی ایسا کام کیا جو ہمارے طریقے کے مطابق نہیں ہے وہ ناقابل قبول ہے۔‘‘

لیکن جو شخص اس مقرر تعداد سے یا اس مقرر وقت پر ان الفاظ کے ساتھ ذکر کرے جو صحیح احادیث میں مذکور ہیں تو یہ بہت ا چھی بات ہے۔ مثلاً یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

(مَنْ قَالَ: لاَ أِلٰہَ أِِللّٰہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیْکَ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلیٰ کُلِّ شَئي قَدِیْرٌ فِي یَوْمٍ مِائَۃَ مَرَّۃٍ کَانَتْ لَہُ عَدْلَ عَشْرِ رِقَابٍ وَکُتِبَتْ لَہُ حَسَنَۃٍ وَمُحِیَتُ عَنْہُ مِاۂ  سَیَّئَۃٍ وَکَانَتْ لَہُ حِرْزاً مِنَ الشَّیْطَانِ یَوْمَہُ ذٰالِکَ حَتَّی یُمْسِیَ، وَلَمْ یَأْتِ أَحَدٌ بِأَفْضَلَ مِمَّا جَائَ بِہِ أِلاَّ رَجُلٌ عَمِلَ أَکْثَرَ مِنْہُ)

’’جو شخص دن میں سو بار کہے: لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وطو علی کل شي قدیر اسے دس غلام آزاد کرنے کا ثواب ملے گا اور اس کے لئے سونیکیاں لکھی جائیں گی اور اس کے سو گناہ معاف ہوجائیں گے اور وہ اس دن شام تک شیطان سے محفوظ رہے گا اور کسی کا عمل اس سے افضل نہیں ہوگا مگر جس نے اس سے زیادہ عمل کیا۔‘‘

اس حدیث کو امام بخاری اور امام مسلم رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے۔ اسی طرح یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

(مَنْ قَالَ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہِ فِي یَوْمٍ مِائَة مَرَّۃٍ حُطَّتْ عَنْہُ خَطَایَاہُ وَأِنْ کَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ)

’’جس نے ایک دن میں سو مرتبہ سبحان اللہ وبحمدہ کہا، اس کے گناہ معاف ہوجائیں گے اگرچہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں۔‘‘

اس حدیث کو امام بخاری اور امام مسلم نے روایات کیا ہے۔ اس طرح کے دیگر اذکار جن کے وقت اور تعداد کا تعین احادیث سے ثابت ہوجائے، ان کے وقت اور تعداد کا خیال رکھنا مشروع ہے بشرطیکہ اس کی کیفیت میں کسی قسم کی بدعت شامل نہ ہوجائے۔ ورنہ وہ ذکر مذموم بدعت میں شمار ہوگا جس طرح یہ جواب کی ابتدا میں بیان کیا جاچکا ہے۔

کبھی کبھار بدعت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ اس میں فوت شدہ یا دور دراز جگہ پر موجود بزرگوں سے مدد طلب کی جاتی ہے اور مشکلات کے حل کی درخواست کی جاتی ہے، اس طرح شرک اکبر کا ارتکاب ہوجاتاہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے محفوظ رکھے۔

وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلَّمَ

 اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن بازفتویٰ (۷۷۸۱)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلددوم -صفحہ 186

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ