سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(175) قرآن وسنت کے خلاف کوئی عمل قبول نہیں

  • 8150
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1939

سوال

(175) قرآن وسنت کے خلاف کوئی عمل قبول نہیں

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

صوفیہ کے سلسلوں کے مشائخ مختلف ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ لوگوں سے وعدے لیتے ہیں۔ بیعت کرنے والا یہ وعدہ کرتا ہے کہ کبھی خیانت نہیں کرے گا۔ وہ اجتماعی طور پر ذکر کرنے کے لئے راتیں متعن کرلیتے ہیں۔ پھر حلقے بنا کر یا صفیں بنا کر بیٹھے ہوئے یا کھڑے ہوئے اللہ تعالیٰ کے خاص خاص ناموں کے ساتھ ذکر کرتے ہیں۔ مثلاً ’’اللہ‘‘ یا ’’حی‘‘ ’’یا قیوم‘‘ یا ’’آۃ‘‘ اس دوران وہ دائی ں بائیں جھومتے ہیں۔ ان کے ساتھ دوسرے افراد کی ایک جماعت ہوتی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی مدح میں، یا دوسرے انبیائے کرام علیہ السلام یا اولیائے کرام کی تعریف میں ترنم کے ساتھ اشعار پڑھتے ہیں۔ عموماً اس دوران طبلے، دف اور دوسرے ساز بجائے جاتے ہیں۔ بعض حاضرین نقدی کی صورت میں نذرانہ بھی پیش کرتے ہیں۔ جسے ’’نقطہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ساز ہوتے ہیں نہ دف اور نہ نقطہ۔

پھر یہ نعد خواں یوں بھی کہتے ہیں: ’’یا حسین مدد‘ یا سیدہ زینب مدد‘ یا سید بدوی مدد‘ اے میرے نانا رسول ا للہ مدد! یا اولیاء اللہ مدد! بعض لوگ سید بدوی‘ یا جناب حسین‘ یا سیدہ زینب وغ؁رہ کے نام کی بکری یا نقد رقم کی نذر بھی مانتے ہیں، بعض اوقات جس بزرگ کی نذر مانی جاتی ہے، اس کے مزار پر مینڈھا ذبح کرتے ہیں اور اس بزرگ کی تعمیر کی قبر کے پاس رکھے ہوئے صندوق میں نذر کی رقم ڈالتے ہیں۔ براہ کرم یہ وضاحت فرمائیے کہ یہ سب کام جائز ہیں یا نہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر فرمائے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسلمان مرد اور عورتیں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی بیعت کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے السام کے مطابق عقیدہ رکھنے اور عمل کرنے کا عہدوپیمان کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  انہیں جو ہدایات دیں ان کی تعمیل کریں، یہ ہدایات قرآن مجیدش اور صحیح احادیث میں موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی اطاعت کا حکم اپنی اطاعت کے حکم کے ساتھ ہی دیا ہے بلکہ نبی علیہ السلام کیاطاعت کو اللہ نے خود اپنی اطاعت کو اللہ نے خود اپنی اطاعت قرار دیا ہے جیسا کہ قرآن مجید کی بہت سی آیات سے ظاہر ہے۔ مثلاً ارشاد ربانی تعالیٰ ہے:

﴿وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ  فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّہَدَآئِ وَالصّٰلِحِیْنَ وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ  رَفِیْقًا﴾ (النساء۴؍۶۹)

’’اور جو اللہ تعالیٰ کی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی اطاعت کرے تو وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا یعنی انبیاء‘ صدیقین‘ شہداء اور نیک لوگ یہ بہترین ساتھی (رفیق) ہیں۔‘‘

اور فرمایا:

﴿مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ وَمَنْ تَوَلّٰی فَمَآ اَرْسَلْنٰکَ عَلَیْہِمْ حَفِیْظًا﴾ (النساء۴۴؍۸۰)

’’جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور جس نے پیٹھ پھیرلی تو ہم نے آپ کو ان پر نگران بنا کر نہیں بھیجا ۔‘‘

اور فرمایا:

﴿وَ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ احْذَرُوْا فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَا عَلٰی رَسُوْلِنَا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ﴾ (المائدۃ۵؍۹۲)

’’اور تم اللہ تعالیٰ کا حکم مانو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا حکم مانو اور ڈرتے رہو۔ پس اگر تم پھر جاؤ تو ہمارے رسول کے ذمہ توصرف وضاحت پہنچا دینا ہے۔‘‘

اور اللہ تعالیٰ نے کتاب وسنت کی تعلیمات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی اتباع کو ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت کی علامت قرار دیا ہے اور ان سے اللہ تعالیٰ کی محبت کا سبب اور گناہوں کی معافی کا باعث فرمایا ہے۔ ارشاد ربانی تعالیٰ ہے:

﴿قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاللّٰہُ  غَفُوْرٌ رَّحِیْم﴾ (آل عمران۳؍۱۳)

’’(اے پیغمبر!) کہہ دیجئے! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو پھر میری پیروری کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرمادے گا اور اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا مہربان ہیں۔‘‘

نیز ارشاد ہے:

﴿قُلْ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَ﴾ (آل عمران۳؍۳۱۔۳۲)

’’(اے پیغمبر!) کہہ دیجئے اللہ اور رسول کی اطاعت کرو، پس اگر وہ پھر جائیں تو یقیناً اللہ تعالیٰ کافروں سے محبت نہیں رکھتا۔‘‘

نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے یہ بات ثابت نہیں کہ آپ نے خلافئے راشدین یا کسی اور صحابی سے اس انداز کی بیعت لی ہو یا وعدہ لیا ہو جس طرح صوفیہ کے مشائخ اپنے مریدوں سے لیتے ہیں، کہ وہ اللہ کاذکر اللہ کے خاص خاص مفرد ناموں سے کریں مثلاً اللہ،حی‘ قیوم‘ اور اسے وظیفہ بنالیں، جسے وہ پابندی سے پڑھیں اور ہر روز یا ہر رات یہ وظیفہ کریں، اور شیخ کی اجاز تکے بغیر اللہ تعالیٰ کے کسی اور مقدس نام کا وظیفہ نہ کریں ورنہ ایسا شخص شیخ کا نافرمان اور گستاخ سمجھا جائے گا اور خطرہ ہوگا کہ حق سے تجاوز کرنے کی وجہ سے ان اسماء کے خادم اسے تکلیف پہنچائیں۔ اس کے علاوہ صوفیہ کے ان سلسلوں میں سے ہر سلسلہ کے پیروں کی یہ پوری کوشش ہوتی ہے کہ اپنے مریدوں اور دوسریپیروں کے مریدوں کے درمیان فتنہ فساد کے بیج بوئیں۔ حتیٰ کہ انہوں نے دین میں تفرقہ ڈال کر الگ الگ فرقے اور جماعتیں بنا دی ہیں۔ ہر کوئی اپنی بدعت کی طرف بلاتا ہے اور اپنے مریدوں کو دوسرے سلسلہ کے پیروں سے عقیدت رکھنے یا ان کی بیعت کرنے یا ان کے سلسہ میں داخل ہونے سے منع کرتا ہے۔ اس کے علاوہ اس قسم کی پابندیاں لگاتے ہیں جو قرآن مجیدمیں نازل ہوئیں نہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے بیان فرمائیں، اس طرح ان پر یہ آیت صادق آتی ہے:

﴿اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْادِیْنَمُ وَکَانُوْ اشِیَعًا لَّسْتَ مِنْہُمْ فِیْ شَیْئٍ اِنَّمَآ اَمْرُہُمْ اِلَی اللّٰہِ ثُمَّ یُنَبِّۂ مْ بِمَا کَانُوْا یَفْعَلُوْن﴾ (الانعام۶؍۱۵۹)

’’جنہوں نے اپنے دین میں ترفقہ ڈالا اور (مختلف) گروہ بن گئے آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے، پھر وہ انہیں بتائے گاکہ وہ کچھ کرتے رہے تھے۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے متعلق کہیں مذکور نہیں کہ آپ نے مفرد اسم مثلا حی‘ قیوم’ حق اللہ وغیرہ کے ساتھ ذکر کیاہو، یا اس کا حکم دیا ہو اسے روزانہ پڑھنے کے لئے وظیفہ قراردیا ہو اور نہ کہیں یہ مذکور ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے مسلمانوں کو ایک دوسرے سے دوستی رکھنے سے منع کیا ہو بلکہ آپ نے انہیں ایک دوسرے سے دوستی اور محبت رکھنے کا حکم دیا او ران کی تعریف کرتے ہوئے ان کا یہ وصف بیان فرمایا:

﴿وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ یُطِیْعُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ اُولٰٓئِکَ سَیَرْحَمُہُمُ اللّٰہُ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْم﴾ (التوبة۹؍۸۱)

’’مومن مرد اور عورتیں باہم ایک دوسرے کے دوست ہیں وہ بھلائی کا حکم دیتے، برائی سے روکتے، نماز قائم کرتے، زکوٰۃ دیتے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کی رحمت فرمائے گا۔ اللہ یقیناً غالب اور حکمت والا ہے۔‘‘

اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:

(لاَ یُوْمِجُ أَحَدُکُمْ حَتَّیٰ یُحِبَّ لأخِیہِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہٖ)

تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں بن سکتا حتیٰ کہ اپنے بھا ئی کے لئے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتاہے۔‘‘ [1]

اور یہ بھی ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

(اَیَّاکُمْ وَاظَّنَّ فَأِنَّ الظَّنَّ أَکْذًَُ الْحَدِیْثِ‘ وَلاَ تَحَسَّسُوا وَلاَ تَجَسَّسُوا وَلاَ تَدَابَرُوْا وَلاَ تَبَاغَضُوا وَکُوْنُوْا عِبَادَاللّٰہ أِخْوَاناً)

’’بدگمانی سے بچو، سب سے جھوٹی بات ہے اور ٹوہ نہ لگاؤ اور جاسوسی نہ کرو اور ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرو[2] ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ۔‘‘[3]

(۲)  چند افراد کامل کر قرآن مجید کی تلاوت‘ مطالعہ،تدبر اور اس کے معانی ومطالب پر غوروفکر کرنا ایک ایسا کام ہے جس کی فضیلت جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بیان فرمائی ہے۔ چنانچہ ارشاد نبوی ہے:

(مَااجْتَمَعَ قَوْمٌ فِي بَیْتٍ اللّٰہِ یَتْلُوْنَ کِتَابَ اللّٰہِ وَیَتَدَارَ سُونَہُ بَیْنَھُمْ أِلاَّ نَزَلَتْ عَلَیْھِمْ السَّکِیْنَۃُ وَغَشِیَھُمْ الرَّحْمَۃُ وَحَقَّتْھُمْ الْمَلاَئِکَۃُ وَذَکَرَھُمُ اللّٰہُ فِیمَنْ عِنْدَہُ)

’’جو لوگ اللہ کے کسی گھر میں جمع ہو کر قرآن مجید کی تلاوت کرتے او راس کا مذاکرہ کرتے ہیں ان پر سکینت نازل ہوتی ہے، فرشے ان کے گرد جمع ہو جاتے ہیں اور ان کا ذکر خیراللہ تعالیٰ ان (مقرف فرشتوں) میں کرتا ہے جو اس کے پاس ہیں۔‘‘ [4]

جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے عملی طور پر بھی اس کامطلب سمجھایا ہے۔ بسا اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم  خود تلاوت فرماتے تھے اور مجلس میں حاضر صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم سنتے تھے، اس طرح نبی علیہ السلام انہیں تلاوت اور ترتیل کی تعلیم دیتے تھے، بسا اوقات آپ کسی صحابی کو قرآن پڑھنے کا حکم فرماتے کیونکہ آپ کو قرآن سننا بہت پسند تھا۔ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے فرمایا: ’’مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ‘‘ انہوں نے عرض کی: حضور! میں آپ کو سناؤں حالانکہ آپ پر وہ نازل ہوا ہے؟ فرمایا:

(فَأَنِّیْ أُحِبُّ أَنْ أَسْمَعَہُ مِنْ غَیْرِي)

’’ہاں! میرا جی چاہتاہے کہ کسی سے قرآن سنوں‘‘

حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہما نے سورۃ النساء میں سے تلاوت شروع کی۔ جب اس آیت پر پہنچے

﴿فَکَیْفَ اِذَاجِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَہِیْدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی ہٰٓؤُلَآئِ شَہِیْدًا﴾ (النساء۴؍۴۱)[5]

تو فرمایا، بس کرو دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔‘‘[6]

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  صحابہ کرام کو وقفہ دے کر نصیحت کرتے تھے کہ اکتاہٹ پیدا نہ ہوجائے۔ مسجد وغیرہ میں ان کی رہنمائی کے لئے اور انہیں دین کی باتیں سکھانے کیلئے تشریف رکھتے تھے، کبھی کبھار انہیں متوجہ کرنے کیلئے یا کسی خاص نکتہ کی طرف توجہ مبذول کرنے کے لئے ان سے سوالات بھی کرتے تھے۔ پھر جب دیکتھے کہ وہ پوری طرح متوجہ ہیں اور جو اب سننے کا شوق بیدار ہوگیا ہے تو جواب ارشاد فرماتے۔ اس طرح وہ مسئلہ انہیں خواب یاد ہوجاتا اور اچھی طرح سمجھ میں آجاتا۔ صحیح بخاری میں حضرت ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  مسجد میں تشریف فرماتھے، آپ کے ساتھ دوسرے لوگ بھی بیٹھے تھے کہ اچانک تین آدمی آگئے، ان میں سے دوجناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ( مجلس) کی طرف آگئے اور ایک واپس چلا گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے قریب آکر وہ دونوں رکے۔ ایک کو (حاضرین کے) حلقہ میں جگہ نظر آئی‘ وہ وہاں بیٹھ گیا۔ دوسرا ان کے پیچھے بیٹھ گیا اور تیسرا تو واپس ہی چلا گیاتھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  (زیر بحث مسئلہ پر بات کرکے) فارغ ہوئے تو فرمایا:

(أَلاَ أُخْبِرُکُمْ عَنِ النَّفَرِ ثَلاَثَۃِ؟ أَمَّا أَحَدَھُمْ فَأوٰی أِلیٰ اللّٰہِ فأوٰاہُ اللّٰہ،وَأَمَّا الْآخِرُ فَاسْتَحْیَا اللّٰہُ مِنْہ،وَأَمَّا الْآخِرُ فَأَعْرَضَ فَأَعْرَضَ اللّٰہُ عَنْہُ)

’’میں تمہیں ان تین آدمیوں کی بات نہ بتاؤں؟ ایک نے اللہ کی طرف جگہ چاہی تو اللہ نے اسے جگہ دی۔[7]

دوسرے نے شرم کی‘ تو اللہ نے بھی اس سے شرم کی[8]

اور تیسرے نے اعراض کیا تو اللہ نے بھی اسے اعراض کرلیا۔‘‘[9]

صحی بخاری میں اور دیگر کتابوں میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

(أِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَۃًلاَ یَسْقُطُ وَرَقُھَا؟ وَأِنَّھَا مَثَلُ الْمُؤْمِنِ حَدِّثُوْنِي مَا ھِیَ؟))

’’درختوں میں سے ای درخت ایسا ہے جس کے پتے نہیں گرتے اور اس کی مثال مومن کی سی ہے، مجھے بتاؤ وہ کونسا درخت ہے؟‘‘

لوگ جنگلوں کے درختوں میں پڑ گئے[10] عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ’’میرے دل میں خیال آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے (لیکن میں خاموش رہا۔) پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی‘ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمیں بتا دیجئے وہ کونسا درخت ہے؟ فرمایا:

(ھِیَ النَّخْلَة)

’’وہ کھجور کا درخت ہے۔‘‘[11]

اس کے علاوہ اور بہت سی مثالیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے، صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ مل کر ذکر کرنے کی عملی صورت یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  انہیں تعلیم دیتے اور ان کی رہنمائی فرماتے، وعظ ارشاد فرماتے، ان کا امتحان لیتے اور فہم وعبرت سے بھر پور تلاوت ہوتی‘ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہفتہ کے کسی دن یا رات کو خاص کر کے اپنے صحابہ کے ساتھ مل کر باجماعت اللہ تعالیٰ کے کسی مبارک نام کا ذکر اس طرح کیا ہو کہ وہ دائرہ کی صورت میں یا صف بنا کر کھڑے یا بیٹھے ہوں اور نشہ بازوں کی طرح جھومتے ہوں اور نغموں کے سروں، گویوں کے گانوف‘ دف کی تال‘ ڈھول کی تھاپ اور سازوں کی آواز پر بے خود ہو کر ناچنے والوں کی طرح تھرکتے ہوں۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو کام صوفیہ آج کل کرتے ہیں وہ بدعت اور گمراہی ہے ج سے اللہ تعالیٰ ناراض ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:

(مَنْ حَدَّثَ فِي أَمْرِنَا ھٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَھُوَ رَدّٔ)

جس نے ہمارے دین میں بدعت نکالی جو (اصل میں) اس کا جز نہیں تھی‘ تو وہ مردود ہے‘‘ متفق علیہ۔

تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ نعت خواں اس طرح کے جو الفاظ کہتے ہیں یا حسین مدد‘ یا سیدہ زینب مدد‘ یا بدوی یا شیخ العرب مدد‘ یا رسول اللہ مدد یا اولیاء اللہ مدد وغیرہ یہ زیادہ برا کام ہے اور اس کا گناہ بھی زیادہ ہے۔ کیونکہ یہ شراب اکبر میں داخل ہے جس کا مرتکب ملت اسلامیہ سے خارج ہوجاتا ہے۔ کیونکہ یہ مردوں سے فریاد ہے کہ انہیں بھلائی اور مال دیں، ان کی فریاد رسی کریں، ان سے مشکلات اور تکالیف دور کریں۔کیونکہ یہاں مدد سے مراد فریاد رسی اور عطا کرنا ہے۔ یعنی جب کوئی شخص کہتاہے ’’مدد یا سید بدوی‘‘ یا کہتا ہے ’’مدد یا سیدہ زینب‘‘ تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہمیں کچھ خیر عطا فرمائیے اور ہماری تکلیفیں دور کردیجئے اور بلائیں ٹال دیجئے، ا س طرح کہنا شرک اکبر ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ کائنات کے تمام معاملات وہی چلاتا ہے اور مختلف چیزوں کو اسی نے بند وں کے لئے مسخر کر رکھا ہے۔ اس کے بعد فرمایا:

﴿ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ لَہُ الْمُلْکُ وَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ مَا یَمْلِکُوْنَ مِنْ قِطْمِیْرٍ٭اِنْ تَدْعُوْہُمْ لَا یَسْمَعُوْا دُعَآئَ کُمْ وَ لَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَکُمْ وَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکْفُرُوْنَ بِشِرْکِکُمْ وَ لَا یُنَبِّئُکَ مِثْلُ خَبِیْر﴾ (الفاطر۳۵؍۱۳۔۱۴)

’’یہ ہے اللہ،تم سب کا پالنے والا، بادشاہی اسی کی ہے اور اس کے سوا جنہیں تم پکارتے ہو وہ تو کھجور کی گٹھلی کے باریک سے چھلکے کے بھی مالک نہیں، اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار نہیں سنتے ہی نہیں، اگر (بالفرض) سن بھی لیں تو تمہاری درخواست قبول نہیں کریں گے اور قیامت کے دن تمہارے شرک کا انکار کریں گے۔ (یعنی کہیں گے کہ ہمیں تو معلوم ہی نہیں کہ یہ لوگ پکارتے اور ہم سے مدد مانگتے رہے ہیں) اور آپ کو خبر رکھنے والے (اللہ تعالیٰ) کی طرح کوئی اور یقینی خبر نہیں دے سکتا۔‘‘

اس آیت میں ان کے پکارنے کو شرک کہا گیا ہے۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہے:

﴿وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَدْعُو مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَنْ لَا یَسْتَجِیبُ لَہٗ اِِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ وَہُمْ عَنْ دُعَاۂ مْ غَافِلُوْنَ ٭وَاِِذَا حُشِرَ النَّاسُ کَانُوْا لَہُمْ اَعْدَائً وَّکَانُوْا بِعِبَادَتِہِمْ کٰفِرِیْنَ﴾ (الاحقاف۴۶؍۵۔۶)

’’اس سے زیادہ گمراہ کون ہوسکتا ہے جو اللہ کے سوا ایسے (معبود) کو پکارتا ہے جو قیامت تک اس کی دعا قبول نہ کرے۔ وہ (معبود) تو ان (پکارنے والوں) کے پکارنے سے بے خبر ہیں اور جب لوگ اٹھائے جائیں گے تو وہ ان کے دشمن بن جائیں گے اور ان کی عبادت کا انکار کردیں گے۔‘‘

ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ اللہ کے سوا جن انبیاء واولیاء کو پکارا جاتا ہے وہ پکارنے والوں کی نداؤں سے بے خبر ہیں اور کبھی ان کی درخواست قبول نہیں کرسکتے۔ قیامت کے دن وہ ان پکارنے والوں کے دشمن بن جائیں گے اور اس بات سے انکار کردیں گے کہ ان مشرکوں نے کبھی ان بزرگوں کی پوجا کی ہو۔(یعنی صاف کہہ دیں گے کہ تم نے ہماری پوجا نہیں کی تھی‘ ہمیں بالکل علم نہیں۔) ایک اور مقام پر ارشاد ہے:

﴿اَیُشْرِکُوْنَ مَا لَا یَخْلُقُ شَیْئًا وَّ ہُمْ یُخْلَقُوْنَ٭وَ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ لَہُمْ نَصْرًا وَّ لَآ اَنْفُسَہُمْ یَنْصُرُوْنَ٭وَ اِنْ تَدْعُوْہُمْ اِلَی الْہُدٰی لَا یَتَّبِعُوْکُمْ سَوَآئٌ عَلَیْکُمْ اَدَعَوْتُمُوْہُمْ اَمْ اَنْتُمْ صَامِتُوْنَ٭اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ عِبَادٌ اَمْثَالُکُمْ فَادْعُوْہُمْ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْن﴾ (الاعراف۷؍۱۹۱۔۱۹۴)

’’کیا یہ لوگ ان کو شریک کرتے ہیں جو کچھ بھی پیدا نہیں کرتے بلکہ وہ خود پیدا کئے جاتے ہیں۔وہ ان (مشرکوں) کی مدد نہیں کرسکتے نہ وہ خود اپنی مدد کرتے ہیں۔ اگر تم ان (مشرکوں) کو ہدایت کی طرف بلاؤ تو تمہاری پیروری نہیں کرتے، تمہارے لئے برابر ہے کہ انہیں پکارو یا خاموش رہو۔ (اے مشرکو!) جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ تمہاری طرح کے بندے ہیں، تو اگر تم سچے ہو تو وہ تمہاری درخواست قبول کریں۔ (پھر کیوں وہ تمہاری حاجت روائی نہیں کرتے؟‘‘)

دوسرے مقام پر فرمایا:

﴿وَمَنْ یَّدْعُ مَعَ اللّٰہِ اِِلٰہًا آخَرَ لَا بُرْہَانَ لَہٗ بِہٖ فَاِِنَّمَا حِسَابُہُ عِنْدَ رَبِّہٖ اِِنَّہُ لَا یُفْلِحُ الْکٰفِرُوْنَ﴾ (المومنون۲۳؍۱۱۷)

’’جو کوئی اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو بھی پکارتا ہے اس کے پاس اس کوئی دلیل  نہیں، تو اس کا حساب اس کے رب کے پاس ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کافر فلاح نہیں پائیں گے۔‘‘

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ جو شخص اللہ کو چھوڑ کر مردوں وغیرہ کو پکارتا ہے، اسے فلاح نصیب نہیں ہوگی کیونکہ وہ غیراللہ کو پکار کر کفر کا ارتکاب کرچکا ہے۔

اور رہی آپ کی چوتھی بات تو ایسے کام کی نذر ماننا جن سے اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل ہوتی ہے، یہ بھی عبادت ہے۔ مثلاً جانور ذبح کرنے اور نیکی کے کاموں میں خرچ کرنے کی نذر ماننا۔ اس کیوجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسی نذر پوری کرنے والے کی تعریف کی ہے اور اسے اجروثواب دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 ﴿یُوْفُونَ بِاالنَّذْرِ﴾ (الانسان۷۶؍۷)

’’وہ نذر پوری کرتے ہیں‘‘

﴿وَ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ نَّفَقَۃٍ اَوْ نَذَرْتُمْ مِّنْ نَّذَرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُہٗ﴾ (البقرۃ۲؍۲۷۰)

’’تم جو کچھ خرچ کرتے ہو یا جو نذ رمانتے ہو اللہ تعالیٰ اسے جانتاہے۔‘‘

لہٰذا جو شخص کسی ایسے کام کی نذر مانے جس میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے تو اس پر اس کی نذر کو پورا کرنا واجب ہوتاہے اور جو شخص اللہ کے لئے جانور ذبح کرنے کی نذر مانے وہ شرک کا مرتکب ہوتا ہے، اس نذر کا پورا کرنا حرام ہے، اس کا فرض ہے کہ شرک سے اور تمام شرکیہ اعمال سے توبہ کرے۔ ارشاد ربابی ہے:

﴿قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ٭لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْن﴾ (الانعام۶؍۱۶۲۔۱۶۳)

’’(اے پیغمبر!) فرمادیجئے! بے شک میری نماز‘ میری قربانی‘ میری زندگی‘ میہری موت (سب کچھ) اللہ رب العالمین کے لئے ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی بات کا حکم ہے اور میس سب سے پہلا فرمانبردار ہوں۔‘‘

نیز فرمان ا لٰہی ہے:

اِِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ (۱)﴿فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ ٭اِِنَّ شَآنِئَکَ ہُوَ الْاَبْتَرُ﴾ (الکوثر۱۰۸؍۱۔۲)

’’ہم نے آپ کو کوثر عطا کیا ہے۔ لہٰذا اپنے رب کے لئے نماز ادا کیجئے اور قربانی کیجئے۔‘‘

لہٰذا مسلمان کا فرض ہے کہ کتاب اللہ کی پیروی کرے، جناب رسول اللہ کے طریقے پر چلے، اور اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق اس کی عبادت کرے، دعا صرف اسی سے کرے اور باقی تمام عبادتیں بھی۔ مثلاً نذر، توکل‘ اور سختی نرمی ہر حال میں اسی کی طرف رجوع کرنا، خالص اسی کے لئے انجام دے۔

وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلَّمَ

 اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز


[1]              صحیح بخاری حدیث نمبر: ۱۷۔ صحیح مسلم حدیث نمبر: ۷۲۔ جامع ترمذی حدیث نمبر: ۲۵۱۷۔ کتاب الایمان ابن مندہ حدیث نمبر: ۲۹۵۔

[2]               حدیث کا لفظ ’’لایدابروا،، ہے۔ اس کامطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ ’’چغلی نہ کھاؤ۔،،

[3]               مسند احمد ج:۲، ص:۲۴۵، ۲۸۷،۳۱۲، ۳۴۲، ۴۶۵، ۴۹۲، ۵۰۷، ۵۱۷، ۵۳۹۔ صحیح بخاری حدیث نمبر: ۵۱۴۳۔

[4]               صحیح مسلم حدیث نمبر: ۲۶۹۹۔

[5]               آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ’’اس وقت کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت سے گواہ لائیں گے اور آپ کو ان پر گواہ لائیں گے؟،،

[6]               صحیح بخاری حدیث نمبر:۵۰۴۹۔ صحیح مسلم حدیث نمبر:۸۰۰۔ ابی داؤد حدیحث نمبر: ۳۶۶۸۔ ترمذی حدیث نمبر:۳۰۲۷۔

[7]               یعنی وہ علمی مجلس میں آیا جس میں اللہ کی باتیں ہورہی تھیں، تو اسے ثواب ملا اور وہ الہ سے قریب ہوگیا۔

[8]               یعنی اللہ نے اس کی شرم رکھی، اسے ثواب سے محروم نہیں رکھا۔

[9]               جب اس نے علم وذکر میں رغبت کا اظہار نہیں کیا تو ثواب اور رحمت سے محروم رہا۔ صحیح بخاری حدیث نمبر: ۶۶، ۴۷۴، صحیح مسلم حدیث نمبر:۲۱۷۶۔

[10]             یعنی مختلف درختوں کے بارے میں سوچنے لگے شاید فلاں درخت ہے یا فلاں درخت ہے۔

[11]             صحیح بخاری  حدیث نمبر ۶۱، ۷۲، ۲۲۰۹، ۴۶۹۷، ۵۴۴۴، ۶۱۳۲، ۶۱۴۴۔ صحیح مسلم حدیث نمبر : ۲۱۶۵۔ ترمذی حدیث نمبر: ۲۸۷۱

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلددوم -صفحہ 178

محدث فتویٰ

تبصرے