السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اس حدیث نبوی کا کیا مطلب ہے؟
(سَأَلْتُ رَبِّی عَزَّوَجَلَّ ثَلاَثَ خِصَالٍ فَأَعْطَانِي اثْنَتَیْنِ وَمَنَعَنِي وَاحِدَۃً، سَأَلْتَ رَبِّي أَنْ لاَ یُھْلِکَنَا بِمَا أَھََْکَ بِہِ الْأُمَمَ فَأَعْطَانِیھَا، فَسَأَلْتُ ُ رَبِّی عَزَّوَجَل أَنْ لاعَلَیْنَا عَدُوَّا م ِنْ غَیْرِنَا فَأَعْطَانِیھَا، فسَأَ لْتُ رَبِّیأَنْ لاَ یَلْبِسَھَا شِیَعاً فَمَنَعَنِیَھَا؟)
میں نے اپنے رب سے تین چیزیں مانگیں، اس نے مجھے دوچیزیں دے دیں اور ایک نہیں دی۔ میں نے اپنے رب سے یہ سوال کیا کہ ہمں ان عذابوں کے ذریعے ہلاک نہ کرے جن کے ذریعے اس نے سابقہ امتوں کو تباہ کیا تھا۔ اس نے میری یہ درخواست قبول فرمائی۔ اور میں نے اس سے یہ سوال کیا کہ ہم پر غیروں میں سے کسی دشمن کو مسلط نہ کرے، اللہ نے یہ چیز بھی عنایت فرمادی اور میں نے اپنے رب سے سوال کیا کہمیں فرقوں میں تقسیم نہ کرے تو اللہ تعالیٰ نے یہ چیز مجھے نہیں دی۔‘‘
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس حدیث کو امام ترمذی رضی اللہ عنہما نے اپنی کتاب میں روایت کیا ہے اور کہا ہے: ’’یہ حدیث حس صحیح ہے۔‘‘ امام نسائی رضی اللہ عنہما نے بھی اسے راویت کیا ہے اور مذکورہ بالا الفاظ سے روایت کے ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو حضرت ثوبان رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔[1]
حدیث شریف کا مطلب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے اپنی امت کے لئے تین باتو ں کی دعا فرمائی‘ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ اس امت کو اس طرح تباہ نہ کرے، جس طرح سابقہ امتیں مختلف عذابوں سے ہلاک ہوئیں مثلاً پانی میں غرق ہو کر، تیز آندھی کی وجہ سے، زلزلہ کے ذریعے، آسمان سے پتھر برسا کر دوسری دعا یہ فرمائی کہ غیر مسلم دشمن ان پر اس طرح غالب نہ آجائیں کہ انہیں بالکل ختم کردیں اور تیسری دعا یہ فرمائی کہ وہ خواہشات نفس کی وجہ سے آپس میں اختلاف کرکے مختلف گروہ اور پارٹیاں نہ بن جائیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ ’’اللہ عزوجل نے اپنے فضل سے پہلی دو دعائیں قبول فرمالیں اور تیسری دعا کسی حکمت کی بنا پر قبول نہیں فرمائی۔ وہ حکمت صرف اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِهٖ وَصَحْبِهٖ وَسَلَّمَ
اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز
[1] صحیح مسلم حدیث :۲۸۸۹، ۔ ۲۸۹۔ جامع ترمذی حدیث :۲۱۷۶،۲۱۷۷۔ سنن ابی داؤد حدیث: ۴۲۵۲۔ سنن ابن ماجہ حدیث: ۳۹۵۲۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب