سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(134) شریعت اور طریقت میں فرق

  • 8111
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2644

سوال

(134) شریعت اور طریقت میں فرق

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

  شریعت اور طریقت میں کیا فرق ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شریعت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابوں کے ذریعے نازل کی اور جسے رسولوں کو دے کر مبعوث فرمایا تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کرتے ہوئے اس کا قرب حاصل کرنے کیلئے اس (شریعت) پر عمل کریں جس طرح انہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیں۔اور طریقت وہی معتبر ہے جو اس کے مطابق ہو، یعنی اس طریقے کے مطابق جو اللہ تعالیٰ نے خاتم الانبیاء جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ناز ل کیا ہے اور اس کے متعلق یہ فرمایا ہے:

﴿وَ اَنَّ ہٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ﴾  (الانعام ۶/۱۵۳)

’’اور یہ میرا راستہ ہے سیدھا، تو اس کی پیروری کرو اور دوسری راہوں کی پیروی نہ کرو ورنہ وہ تمہیں اس کی راہ سے جدا کردیں گی۔‘‘

اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

(سَتَفْتَرِقُ أُمَّتِیی عَلَی ثَلاَثٍ وَسَبْعِینَ فِرْقَۃً کُلُّھَا فِیی النَّارِ أِلاَّ وَاحِدَۃً۔قِیلَ: مَنْ ھِییَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ قَالَ: مَنْ کَانَ عَلَی مِثْلِ مَا أَنَا عَلَیہِ وَأَصْحَابِیی)

’’میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی‘ وہ سب فرقے جہنم میں جائیں گے سوئے ایک کے۔ عرض کی گئی ’’یا رسول اللہ وہ کون سا ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو لوگ اس چیز پر قائم ہوں گے جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔‘‘ [1]

اس لئے طریقت‘ شریعت ہی میں شامل ہے۔ اس کے خلاف جو بھی طریقے ہیں جیسے صوفیانہ طریقے، تیجانیہ،تقشبندیہ،قادریہ وغیرہ۔ یہ سب بعد میں بننے والے طریقے ہیں، ان کو صحیح تسلیم کرنا یا ان پر عمل کرنا جائز نہیں۔

وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِهٖ وَصَحْبِهٖ وَسَلَّمَ

 اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز


[1]      جامع ترمذی حدیث نمبر: ۲۶۴۳۔ طبرانی صغیر نمبر ۷۲۴ عقیلی: الصنعفاء ۲؍۲۶۲

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلددوم -صفحہ 146

محدث فتویٰ

تبصرے