سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(211) لاعلمی کی وجہ سے ناپاک کپڑوں میں نماز پڑھ لی جائے تو؟

  • 811
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-18
  • مشاہدات : 3364

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر کوئی شخص لا علمی کی وجہ سے ناپاک کپڑوں میں نماز پڑھ لے تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

جب انسان ناپاک کپڑوں میں نماز پڑھ لے اور اسے نماز پڑھنے کے بعد معلوم ہوا ہو کہ یہ کپڑے ناپاک تھے یا اسے علم تو تھا مگر نماز پڑھنے کے بعد اسے یاد آیا ہو تو اس کی نماز صحیح ہے، اسے دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس نے ایک ممنوع کام کا ارتکاب ناواقفیت یا نسیان کی وجہ سے کیا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿رَبَّنا لا تُؤاخِذنا إِن نَسينا أَو أَخطَأنا...﴿٢٨٦﴾... سورة البقرة

’’اے پروردگار! اگر ہم سے بھول چوک ہوگئی ہو تو ہم سے مؤاخذہ نہ کیجئے۔‘‘

اور بندہ جب یہ دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿قَدْ فَعَلْتُ﴾ ’’میں نے ایسا ہی کیا۔‘‘ (صحيح مسلم، الايمان، باب بيان انه سبحانه لم يکلف الا ما يطاق، حديث: ۱۲۶)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک دن اپنے ناپاکی والے جوتوں سمیت نماز پڑھ لی تھی۔ نماز کی ادائیگی کے دوران جبرئیل علیہ السلام  نے آکر آپ کو اس کی خبر دی تو آپ نے نماز پڑھتے ہوئے جوتے اتار دیے اور نماز کو دوبارہ از سر نو شروع نہیں فرمایا، لہٰذا یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے جسے نماز کے دوران ناپاکی کا علم ہو جائے تو وہ اسے زائل کر دے، خواہ نماز کے دوران ہی اسے ایسا کرنا پڑے اور نماز کو جاری رکھے بشرطیکہ اس کے ازالہ کے بعد اس کی برہنگی کو چھپائے رکھنا ممکن ہو۔ اسی طرح جو شخص بھول جائے اور اسے دوران نماز یاد آئے تو وہ اس ناپاک کپڑے کو اتار دے بشرطیکہ اس صورت میں شرم وحیا کے مقام مستور ہوں(ستر عورت کا خیال رہے) اور اگر وہ نماز سے فارغ ہو جائے اور فراغت کے بعد اسے یاد آئے یا فراغت کے بعد اسے اس بات کا علم ہو تو نماز کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے، اس کی نماز صحیح ہوگی۔

اگر کوئی بھول کر بلا وضو نماز پڑھ رہا ہو، مثلاً: اس کا وضو ٹوٹ گیا تھا اور وہ وضو کرنا بھول گیا اور اس نے نماز پڑھ لی اور نماز سے فراغت کے بعد اسے یاد آیا کہ اس نے تو وضو نہیں کیا تھا تو اس کے لیے واجب ہے کہ وہ وضو کر کے دوبارہ نماز پڑھے۔ اسی طرح اگر وہ جنبی تھا لیکن اسے معلوم نہ تھا، مثلاً: رات کو اسے احتلام ہوا اور اسے پتہ نہ چل سکا اور صبح کی نماز اس نے بلا غسل پڑھ لی اور دن کو اسے اپنے کپڑے میں منی نظر آئی تو اس کے لیے واجب ہے کہ وہ غسل کر کے نماز دوبارہ پڑھے۔

پہلے مسئلہ میں اور اس مسئلہ میں فرق یہ ہے کہ نجاست ترک ممنوع کے باب سے ہے اور وضو و غسل کا تعلق فعل مامور کے باب سے ہے۔ اور فعل مامور ایجادی امر ہے،  بندے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اسے بجا لائے کیونکہ اس کے بغیر عبادت ادا نہیں ہوتی۔ جب کہ ازالہ نجاست ایک عدمی امر ہے، نماز اسے معدوم کر دینے کے بعد ہوگی، لہٰذا اگر نسیان یا ناواقفیت کی وجہ سے وہ اس کا ازالہ نہیں کر سکا تو یہ اس کے لیے نقصان دہ نہ ہوگا کیونکہ اس سے کوئی ایسی چیز فوت نہیں ہوئی جس کا حصول نماز میں مطلوب تھا۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ257

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ