السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرا کچھ دوستوں سے تعارف ہوا، وہ عیسائی تھے، میں نے اسلام کی دعوت دی۔ انہوں نے کہا ’’ہم اسلام قبول نہیں کرتے بشرطیکہ تم ایک سوال کا جواب دو۔‘‘ سوال یہ ہے کہ تو اعتراف کرتے ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ تمام آسمانوں، زمینوں اور دیگر مخلوقات کا خالق ہے لیکن وہ پوچھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کس چیز سے بنا ہوا ہے؟ اور کیسے بنا؟ اور کس نے اسے بنایا؟ جب انہوں نے مجھ سے یہ سوال پوچھے تو میں بہت پریشان ہوگیا، میں ان کے پاس سے چلاآیا اور دوبارہ ان کے پا س نہیں گیا، گزار ش ہے کہ مجھے اس معاملہ میں فتویٰ دیں، میں انہیں کیا جواب دوں جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی شان کے لائق ہو اور میں انہیں جواب دے سکوں۔ جزاکم اللہ خیراً۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس قسم کے سوالات شیطان کے وساوس سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ انسانی شیطانوں کو اس قسم کی باتیں سمجھاتا ہے تاکہ وہ دوسروں کو راہ راست سے بھٹکادیں۔ اللہ کی ایک صفت ’’اول‘‘ ہے، لہٰذا کوئی چیز اس سے پہلے نہیں ہوسکتی اور وہ ’’آخرذذہے کہ اس کے بعد کوئی چیز نہیں ہوسکتی[1] اور وہ اکیلاہے کوئی اس کے مشابہ نہیں۔ وہ کسی کا باپ نہ کسی کا بیٹا، نہ اس کا کوئی ہم سرہے۔ صحیح مسلم اور دیگر کتب احادیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(لاَ یَزَالُ النَّاسُ یَسْأَلُونَکُمْ عَنِ الْعِلْمِ حَتَّی یَقُولُوا ھَذَا اللّٰہُ خَلَقَنَا فَمَنْ خَلَقَ اللّٰہَ)
’’لوگ تم سے علم کے بارے میں پوچھتے رہیں گے حتیٰ کہ یہ کہنے لگیں گے ’’ہمیں تو اللہ نے پیدا کیا، اللہ کو کس نے پیدا کیا ہے؟‘‘
جناب ابوہرہ رضی اللہ عنہما نے ایک آدمی کا ہاتھ پکڑکرفرمایا:
(صَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ قَدْ سَأَلَنِی اثْنَانِ وَھَذَا الثَّالِثُ)
’’اللہ نے او راس کے رسول نے سچ فرمایا، (اس سے پہلے) مجھ سے دو آدموں نے یہ سوال کیا ہے اور یہ تیسرا شخص ہے (جس نے یہی سوال کیا ہے۔)‘‘[2]
ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
﴿لاَ یَزَالُ النَّاسُ یَسْأَلُونَکَ یَا أَبَا ھُرَیْرَۃَ حَتَّی یَقُولُو ھٰذَا اللّٰہُ فَمَنْ خَلَقَ اللّٰہَ)
’’(اے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ!)لوگ تجھ سے سوال کرتے رہیں گے حتی کہ کہیں گے کہ اللہ تو ہے پس اللہ کو کس نے پیدا کیا ہے؟‘‘
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ’’میں مسجد میں تھا کہ کچھ اعرابی لوگ آئے۔ انہوں نے کہا ’’اے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ! اللہ تو ہے لیکن اللہ کو کس نے پیداکیا ہے؟ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما نے ہاتھ میں کنکریاں پکڑیں اور انہیں ماریں پھر کہا:
(قُومُوا قُومُوا صَدَقَ خَلِیلِی)
’’اٹھ جاؤ! اٹھ جاؤ!میرے دوست (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے سچ فرمایا تھا۔‘‘[3]
صحیحین میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(یَأْتِی الشَّیْطَانُ أَحَدَکُمْ فَیَقُولُ: مَنْ خَلَقَ کَذَا وَکَذَا حَتَّی یَقُولُ لَہُ: مَنْ خَلَقَ رَبَّکَ فَأِِذَا بَلَغَ لِیَسْتَعِذْ بِا اللّٰہِ وَلَیَنْتَہِ)
’’شیطان تم میں سے کسی کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے فلاں فلاں چیز کو کس نے پیدا کیا؟ حتیٰ کہ کہتاہے ’’تیرے رب کو کس نے پیدا کیا؟ جب یہاں تک نوبت پہنچ جائے تو (بندے کوچاہئے) کہ اللہ کی پناہ مانگے اور (آگے سوچنے سے) رک جائے۔[4]
ایک اور روایت میں ہے کہ
﴿لاَ یَزَالُ النَّاسُ یَسْأَلُونَک حَتّی یُقَالَ اللّٰہُ الْخلَقَ فَمَنْ خَلَقَ اللّٰہَ؟ فَمَنْ وَجَدَ مِنْ ذَالِکَ شَیْئاً فَلْیَقُلْ آمَنْتُ بِاللّٰہِ)
’’لوگ سوال کرتے رہیں گے حتی کہ کہاجائے گا ’’یہ مخلوق تو اللہ نے پیدا کی‘ اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ جس کو یہ چیز پیش آئے تو وہ کہے آمنت باللہ میں اللہ پر ایمان رکھتا ہوں۔‘‘[5]
یہ حدیث ابو داؤد نے بھی روایت کی ہے۔ ان کی ایک روایت میں ہے:
(فَاِذَا قَالُو ذَالِکَ فَقُولُوا: ﴿قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ ٭اَللّٰہُ الصَّمَدُ ٭لَمْ یَلِدْ ۵ وَلَمْ یُوْلَدْ ٭وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ﴾ ثُمَّ لِیَتْقُلْ عَنْ یَسَارِہِ ثَلاَثاً وََلْیَسْتَعِذْ مِنَ الشَّیْطَان)
’’جب وہ یہ بات کہیں تو کہو ’’اللہ ایک ہے۔ بے نیاز ہے نہ اس نے کسی کو جنا، نہ وہ جنا گیا، نہ اس کا کوئی ہم سر ہے۔‘‘ پھر اپنے دائیں طرف تین بار تھوکے اور شیطان سے پناہ مانگے۔[6]
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِهٖ وَصَحْبِهٖ وَسَلَّمَ
اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن بازفتویٰ (۸۸۹۴)
[1] حدیث میں ہے ’’تو اول ہے تجھ سے پہلے کچھ نہیں، تو آخر ہے تیرے بعد کچھ نہیں،،مسند احمد ج: ۲، ص: ۳۸۱۔ صحیح مسلم حدیث نمبر: ۲۷۱۳۔ ابو داؤد حدیث نمبر: ۵۰۵۱۔ جامع ترمذی حدیث نمبر: ۳۳۹۷، ۳۴۷۷۔ ابن ماجہ حدیث نمبر: ۳۸۳۱، ۳۸۷۳۔ مستدرک حاکم ج:۱، ص: ۵۲۴، ۵۴۶۔
[2] صحیح مسلم ج:۱، ص: ۱۲۰حدیث نمبر: ۱۳۵۔
[3] صحیح مسلم ج:۱، ص: ۱۲۰حدیث نمبر: ۱۳۵۔
[4] بخاری مع فتح الباری حدیث نمبر: ۲۲۷۶۔ صحیح مسلم ج:۱ ص:۱۲۰، حدیث نمبر:۱۳۴۔
[5] صحیح بخاری حدیث نمبر ۷۲۹۸۔ صحیح مسلم ج: ۱ ص: ۱۱۹۔ سنن ابی داؤد حدیث نمبر : ۴۷۲۱
[6] سنن ابو داؤد حدیث نمبر: ۴۷۲۲۔ عمل الیوم واللیلہ امام نسائی حدیث نمبر: ۶۶۱۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب