السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے:
﴿اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ وَ یُنَزِّلُ الْغَیْثَ وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِ وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّاذَا تَکْسِبُ غَدًا وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ﴾ (لقمان ۳۱؍۳۴)
’’بے شک اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے اور وہ بارش ناز ل کرتا ہے، اور جاتا ہے جو کچھ رحموں میں ہے اور کوئی جان نہیں جانتی کہ کل کیا کمائے گی؟ اور کوئی جان نہیں جانتی کہ کس زمین پر مرے گی؟ بے شک اللہ ہی علم والا اور خبر رکھنے والا ہے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِ﴾ (لقمان ۳۱؍۳۴)
’’وہ جانتا ہے جو کچھ (ماؤں) کے رحمو ں میں ہے۔‘‘
اس آیت کے بارے میں ایک دوست سے میری بحث ہوئی وہ کہتاتھا کہ جدید معلومات کے مطابق ڈاکٹر مختلف شعاؤں کے ذریعے یہ معلوم کرنے کے قابل ہوگئے ہیں کہ رحم مادر میں لڑکا ہے یا لڑکی؟ میں نے اسے کہا کہ اللہ تو فرماتے ہیں:
﴿وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِ﴾ (لقمان ۳۱؍۳۴)
’’وہ جانتا ہے جو کچھ (ماؤں) کے پیٹوں میں ہے۔‘‘
کیا اس آیت کا مطلب ہے کہ سائنس رحم مادر کے اندر معلومات حاصل نہیں کرسکتی یا اس کا کوئی اور مطلب ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ غیب کی چابیاں پانچ ہیں جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور ان کا ذکر سوال میں مذکورہ آیت میں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’صحیح‘‘ میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(مَفَاتِیحُ الْغَیبِ خَمْسٌ لَا یَعْلَمْھُنَّ أِلاَّ اللّٰہُ ﴿اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ وَ یُنَزِّلُ الْغَیْثَ وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِ وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّاذَا تَکْسِبُ غَدًا وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ﴾ (لقمان ۳۱؍۳۴)
’’غیب کی چابیاں پانچ ہیں، انہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ’’بے شک اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے اور وہ بارش ناز ل کرتا ہے، اور جاتا ہے جو کچھ رحموں میں ہے اور کوئی جان نہیں جانتی کہ کل کیا کمائے گی؟ اور کوئی جان نہیں جانتی کہ کس زمین پر مرے گی؟ بے شک اللہ ہی علم والا اور خبر رکھنے والا ہے۔‘‘
صحی بخاری کی ایک روایت میں حضرت بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’غیب کی چابیاں پانچ ہیں، پھر یہ آیت پڑھی:
﴿اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ وَ یُنَزِّلُ الْغَیْثَ وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِ﴾ (لقمان ۳۱؍۳۴)
’’بے شک اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے اور وہ بارش ناز ل کرتا ہے، اور جاتا ہے جو کچھ رحموں میں ہے ‘‘
امام احمد نے بھی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے۔ اس کے علاوہ دوسری متعدد سندوں سے بھی اس قسم کی روایات آئی ہیں جن سے اس آیت میں مذکور مسئلہ کی تائید ہوتی ہے۔ آیت کریمہ کامفہوم یہ ہے کہ قیامت کا علم اللہ تعالیٰ نے صرف اپنے پاس رکھا ہے، وہی اس کے وقت پر اسے ظاہر کرے گا،اس کے مقررہ وقت سے کوئی مقرف فرشتہ واقف ہے نہ کوئی نبی اور رسول۔ البتہ اللہ تعالیٰ نے اس کی علامتیں بتا دیں ہیں۔ (اسی طرح) اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ بارش کب اور کہاں نازل ہوگی۔ لیکن اصحاب فراست کو مختلف علامتوں کو دیکھ کر اس کے اسباب کی موجودگی میں ایک اجمالی اور تقریبی علم حاصل ہوجاتا ہے جس میں اندازہ کو دخل ہوتا ہے اور یہ اندازہ کبھی غلط بھی ہوجاتا ہے۔ اسی طرح مافی الارحام کا تفصیلی علم صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے کہ اس میں بچے کی تخلیق ہوگی یا نہیں ہوگی اور وہ تمام مدت تک باقی رہ کرنشونما پائے گا یا ا س سے پہلے ہی زندہ یا مردہ پیدا ہوجائے گا اور وہ صحیح سلامت ہوگا یا اس میں کوئی پیدائشی عیب اور نقص ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ علم کسی اور سے حاصل کروہ نہیں، نہ اس کا انحصار اسباب اور تجربات پو ہے، بلکہ اسے اس کے وجود میں آنے سے پہلے اور اس کے اسباب کی موجودگی سے پہلے علم ہوتا ہے کہ وہ کس طرح کا اور کن کیفیات کا حامل ہوگا۔ کیونکہ ان اسباب کا مقدر کرنے والا پھر انہیں وجود بخشنے والا وہی ہے۔ وہ علیم ہے، کوئی چیز اس کے علم سے پیچھے ہوسکتی ہے نہ مختلف ہوسکتی ہے۔
مخلوق کو رحم مادر میں موجودج شے کے متعلق بعض معلومات حاصل ہوسکتی ہیں مثلاً اس کا مذکر یا مونث ہونا، اس کا سالم الاعضاء ہونا یا کسی قسم کی معذوری کا حامل ہونا، یا ولادت کے وقت کا قریب ہونا، یا قبل ازوقت اسقاط کا خطرہ محسوس ہونا، یہ سب معلومات اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اسباب کی بنیاد پر حاصل ہوتی ہیں۔ مثلاً الٹراساؤنڈ وغیرہ کے ذریعے سے۔ لیکن خود بخود یا بلا اسباب حاصل نہیں ہوسکتیں اور یہ بھی اس وقت ہوتی ہیں جب اللہ تعالیٰ فرشے کو جنین کی صورت سازی کا حکم دے چکے ہوتے ہیں اور پھر معلومات رحم کے اندر کے تمام حالات پر مشتمل نہیں ہوتیں، بلکہ بعض صورت حالات کے متعلق ہوتی ہیں اور ان میں بسا اوقات غلطی بھی ہوسکتی ہے اور کسی انسان کو معلوم نہیں کہ مستقبل میں اسے دینی یا دنیوی معاملات میں کیا کچھ حاصل ہوگا۔ اس کا تفصیلی علم بھی محض اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔ لوگوں کو اجمالی طور پر نفع یا نقصان کی توتع ہو تی ہے جس کی وجہ سے ان کے اندر امید پیدا ہوتی ہے تو یہ سب چیزیں ’’علم‘‘ کہلانے کی مستحق نہیں۔ اسی طرح کسی کو معلوم نہیں کہ اس کی موت خشکی میں آئے گی یا سمند میں، وطن میں یا پردیس میں، یہ سب تفصیلات اکیلا اللہ ہی جانتا ہے۔ ا سی کا علم کامل اور ہمہ گیر ہے، جو ظاہروباطن اور کھلی چھپی ہر چیز کو محیط ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اللہ کا علم ذاتی ہے، جو کسی دوسرے سے حاصل ہوتا ہے نہ اس ی بنیاد اسباب وتجربات پر ہوتی ہے، وہ ماضی اور مستقبل سب سے واقف ہے۔ اس کے علم میں کوئی غموض ہے نہ اس میں کوئی غلطی ہوتی ہے۔ اس کا علم تمام کائنات کی ہر چھوٹی بڑی چیز کی تفصیلات پر محیط ہے۔ جبکہ کسی اور کا علم اس طرح کا نہیں ہوسکتا۔
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلَّمَ
اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز فتویٰ (۵۱۱۳)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب