السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اسلامی معاشروں میں اپنے چالو طریق کار کو اسلامی تعلیمات کے موافق ظاہر کرنے کیلئے کچھ کلمات بولے جاتے ہیں جو یہ ہیں:
(وَتَمَشِّیاً مَعَ الْعَادَاتِ وَالتَّقََالِیدِ الأِسْلَامَِّة نَھْجُنَا کَذَ)
’’اسلامی رسم ورواج پر چلتے ہوئے‘‘ ہمارا طریق کار یہ ہے‘‘
زمانہ حاضر کے علمائے کرام کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ یہ الفاظ استعمال کرنے درست نہیں یا نہیں، بعض علماء ان الفاظ کو استعمال کرنا درست نہیں سمجھتے۔ کیونکہ اسلام ’’رسم ورواج‘‘سے الگ چیز ہے۔ انہوں نے اس بارے میں بہت کچھ فرمایا ہے۔ حتیٰ کہ بعض حضرات یہاں تک کہتے ہیں کہ یہ لفظ اسلام دشموں نے ہمارے اندر رائج کیا ہے۔ بعض دوسرے حضرات اس عبارت کے استعمال میں کوئی حرج نہیں سمجھتے کیونکہ اس سے صرف یہ ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے کہ مسلمان اپنے اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی پابندی کرتے ہیں، کسی اور چیز۔ کی طرف توجہ نہیں کرتے اور عبادت کا مقصود بھی تو یہی ہے اور تقالید کا یہ لفظ اسی ’’تقلید‘‘ کے لفظ سے ماخوذ ہے جس پر علمائے کرام نے علمی کتابوں میں بحث کی ہے۔
گزار ش ہے کہ آپ اس لفظ کے ضمنی معانی ومفاہیم کی وضاحت کرتے ہوئے یہ ارشاد فرمائیں کہ اس کا استعمال جائز ہے یا ناجائز ؟ اور دلائل بھی بیان فرمادیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اسلام کسی رسم ورواج کا مجموعہ نہیں بلکہ وہ تو اس وحی کانام ہے جو اللہ نے اور اس کے رسولوں پر ناز ل کی اور جس کے ساتھ اس نے اپنی کتابیں ناز ل فرمائیں جب مسلمان اس کی پیروی کرتے ہیں تو یہ چیز ان کے اخلاق وعادات کا جزو بن جاتی ہے۔ ہر مسلمان جانتا ہے کہ اسلام ایسے قوانین کا نام نہیں جو عوام کے رواج سے ماخوذ ہوں کیونکہ وہ یقیناً اللہ پر، اس کے رسولوں پر اور اسلامی قانون کے تمام بنیادی امور پر ایمان رکھتا ہے لیکن جو الفاظ اخبارات ورسائل اور ریڈیو وغیرہ میں اور مختلف قوانین کی شقوں میں بکثرت استعمال ہوتے ہیں عام لوگ بھی وہی الفاظ استعمال کرنے لگتے ہیں۔ جس کی مثال سوال میں مذکور الفاظ وَتَمَشِّیَا مَعَ الْعَادَاتِ والتَّقَالِیدِ ’’اسلامی رسم ورواج پر چلتے ہوئے‘‘
لوگ اسے اچھی نیت سے بولتے ہیں اور ان کا مقصد دین اسلام اور اس کے احکامات کی اطاعت ہوتی ہے۔ یہ مقصد اچھا ہے جس پر وہ تعریف کے مستحق ہیں، لیکن انہیں چاہئے کہ اس مقصود کو ظاہ رکرنے کے لئے ایسی عبارت استعمال کریں جو اپنے مقصود کو واضح طور پر بیان کرتی ہو اور اس سے شک نہ پڑے کہ اسلام بھی کچھ رسم ورواج وغیرہ کامجموعہ ہے جس پر ہم اور ہمارے آباؤ اجداد چلتے آئے ہیں۔ مثلاً ان معاشروں کے طریق کار کو ظاہر کرنے کے لئے مذکورہ بالا الفاظ کے بجائے اس طرح کہا جاسکتا ہے۔
(وَتَمَشِّیَا مَعَ شَرِیعَۃِ الاسْلَامِ وَأَحْکَامِہِ الْعَادِلَۃِ)
’’اسلامی شریعت اور اس کے عادلانہ احکام پر عمل کرتے ہوئے… ‘‘
ایک مسلمان کے لئے صرف نیت کا صحیح ہونا کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ نیت کو ظاہر کرنے والی عبارت بھی صحیح اور واضح ہونی چاہئے۔ لہٰذا ایک مسلمان کو اس قسم کی عبارت سے بچنا چاہئے جن میں ان غلط معانی کا احتمال ہو کہ اسلام بپی کچھ رسوم اور رواجوں کا مجموعہ ہے۔ جب ایک انسان ایسے الفاظ استعمال کرسکتا ہے جو غلط فہمی کے امکان سے پاک ہوں تو پرھ محض حسن نیت کی بنا پر اسے اس قسم کے ذو معنی الفاظ وتراکیب کے استعمال کی جواب دہی سے بری قرار نہیں دیا جاسکتا۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلَّمَ
اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز فتویٰ (۵۶۰۹)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب