سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(207) فوت شدہ نمازوں کی قضا

  • 807
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1223

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جب نیند یا نسیان کی وجہ سے ایک یا ایک سے زیادہ فرض نماز نہ پڑھی جا سکیں تو فوت شدہ نمازوں کی قضا کس طرح کروں؟ کیا پہلے انہیں اور پھر موجودہ نماز کو پڑھوں یا اس کے برعکس؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

پہلے فوت شدہ نمازوں کو اور پھر موجودہ نماز کو پڑھیں اور انہیں مزید مؤخر کرنا جائز نہیں۔ لوگوں میں جو یہ بات مشہور ہے کہ جس کی فرض نماز فوت ہو جائے تو وہ دوسرے دن کی اسی فرض نماز کے ساتھ پڑھے، مثلاً: اگر کسی دن اس نے نماز فجر نہیں پڑھی تو وہ اگلے دن کی نماز فجر کے ساتھ اسے پڑھے، تو یہ بات غلط اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی اور فعلی سنت کے خلاف ہے۔ قولی سنت تو آپ کا یہ ارشاد ہے:

((مَنْ نَام عنَ صَلَاۃً اَو نسیھاْْفلیُصَلِّیَہَا إِذَا ذَکَرَہَا)) (صحیح البخاري، المواقیت باب من نسی صلاة فلیصل اذا ذکر، ح: ۵۹۷ وصحیح مسلم، المساجد، باب قضاء الصلاة الفائتة، ح: ۶۸۴ (۳۱۵) واللفظ لہ۔)

’’جو شخص سوجائے یاکوئی نماز اداکرنابھول جائے تو جیسے ہی یاد آئے اسے فورا اسی وقت ادا کرلے ۔‘‘

اس حدیث میں آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ اس نماز کو دوسرے دن اس وقت پڑھے جب اس کا وقت آئے بلکہ یہ فرمایا ہے کہ اسی وقت پڑھ لے جب اسے یاد آئے۔

فعلی سنت یہ کہ ایام خندق میں سے ایک دن جب آپ کی نمازیں فوت ہوگئیں تو آپ نے انہیں موجودہ نماز سے پہلے ادا فرمایا۔ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ انسان پہلے فوت شدہ نماز کو پڑھے اور پھر موجودہ نماز کو لیکن اگر اس نے بھول کر موجودہ نماز کو فوت شدہ سے پہلے پڑھ لیا یا وہ جاہل تھا اور اسے اس مسئلے کا علم نہ تھا تو اس کی نماز نسیان یا لا علمی کے عذر کی وجہ سے صحیح ہوگی۔

اس مسئلہ کی مناسبت سے میں یہاں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ قضا نمازوں کی درج ذیل تین قسمیں ہیں:

۱۔      آدمی اس وقت قضا کرے جب عذر ختم ہو جائے یعنی وہ عذر جس کی وجہ سے اس نے نماز کو مؤخر کیا تھا۔ اس قسم میں پانچ فرض نمازیں آتی ہیں کہ جب تاخیر کا عذر ختم ہو جائے تو ان کی قضا واجب ہے۔

۲۔     جب نماز فوت ہو جائے تو اس کی قضا نہ کی جائے بلکہ اس کے بدل کی قضا کی جائے اس قسم کے تحت نماز جمعہ آتی ہے کہ جب انسان اس وقت آئے جب امام نے دوسری رکعت کے سجدہ سے سر اٹھایا لیا ہو تو اس صورت میں وہ ظہر کی نماز پڑھے گا یعنی نماز ظہر کی نیت کے ساتھ امام کے ساتھ نماز میں شامل ہو جائے گا۔ اسی طرح جو شخص امام کے سلام پھیرنے کے بعد آئے تو وہ بھی نماز ظہر پڑھے گا۔ جس نے دوسری رکعت میں رکوع کو پا لیا تو وہ نماز جمعہ پڑھے گا یعنی امام کے سلام پھیرنے کے بعد وہ ایک رکعت پڑھے گا۔

 بہت سے لوگ اس مسئلہ سے ناواقف ہیں، بعض لوگ جمعہ کے دن اس وقت آتے ہیں جب امام نے دوسری رکعت کے سجدہ سے سر اٹھایا ہو تاہے تو وہ اسے جمعہ سمجھتے ہوئے دو رکعتیں پڑھتے ہیں، حالانکہ یہ غلط ہے کیونکہ دوسری رکعت میں امام کے سجدہ سے سر اٹھانے کے بعد شامل ہونے والے نے جمعہ نہیں پایا، لہٰذا اسے نماز ظہر پڑھنی چاہیے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

((مَنْ اَدْرَکَ رَکْعَۃً مِنَ الصَّلَاۃِ فَقَدْ اَدْرَکَ الصَّلَاۃَ)) (صحیح البخاري، المواقیت، باب من ادرک من الصلاة رکعة، ح: ۵۸۰ وصحیح مسلم، المساجد، باب من ادرک رکعة من الصلاة فقد ادرک تلک الصلاة، ح: ۶۰۷۔)

’’جس نے نماز کی ایک رکعت پا لی، اس نے نماز کو پا لیا۔‘‘

اس کا مفہوم یہ ہے کہ جس نے ایک رکعت سے کم پائی تو اس نے جمعہ نہیں پایا، لہٰذا جمعہ کے بجائے اسے اب نماز ظہر کی قضا اداکرنا ہوگی۔ اسی طرح گھروں میں عورتوں اور جمعہ کے لیے حاضر نہ ہو سکنے والے مریضوں پر واجب ہے کہ وہ نماز ظہر پڑھیں۔ جمعہ نہ پڑھیں اگر اس حال میں انہوں نے جمعہ کی دو رکعتیں پڑھیں تو ان کی نماز باطل اور مردود ہوگی۔

۳۔     وہ نماز جو فوت ہو جائے تو اس کی قضا اسی وقت اگلے دن ہوسکے۔ اس سے مراد نماز عید ہے کہ جب اسے اس کے بارے میں زوال آفتاب کے بعد معلوم ہوا ہو تو اہل علم کہتے ہیں کہ وہ اسے اگلے دن اس کے وقت کے ہم مثل وقت میں پڑھے۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ قضا کی تین قسمیں ہیں:

٭     وہ نمازجس کی قضا عذر زائل ہونے کے بعد اداکی جائے، اس سے مراد نماز پنجگانہ، نماز وتر اور ان کے مشابہ سنن مؤکدہ ہیں۔

٭     نمبردووہ نمازجس کے بدل کی قضا دی جائے گی۔ اس سے مراد نماز جمعہ ہے کہ فوت ہونے کی صورت میں قضا کے طور پر نماز ظہر ادا کی جائے گی۔

٭     وہ نمازجس کی بنفسہ قضا تو اداکی جائے گی لیکن اگلے دن اس کے وقت کے نظیر وقت میں کی جائے گی، اس سے مراد نماز عید ہے کہ اگر نماز عید زوال کی وجہ سے فوت ہو جائے تو اگلے دن اس کے وقت کے نظیر وقت میں وہ ادا کی جائے گی۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ254

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ