سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(91) جس کو قرآن کی دعوت نہیں پہنچی اس کا حکم

  • 8069
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2149

سوال

(91) جس کو قرآن کی دعوت نہیں پہنچی اس کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 بدھ مت سے تعلق رکھنے والی ایک تعلیم یافتہ خٓتو نے سات سال تک گہرائی سے اسلام کا مطالعہ کیا اور حا ل ہی میں مسلمان ہوگئی‘ آج کل ہوہ بڑی سرگرمی اسلام سے اسلام کی تبلیغ کرر ہی ہے اور متعدد مرد اور عوتوں اس کی تبلیغ سے مسلمان ہوچکے ہیں۔ ایک بار وہ چند نومسلم افراد کے ساتھ ایک دور دراز علاقے کے تبلیغی دورے پر تھی کہ بدھ مت سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے اس سے ایک سوال کیا کہ آپ لوگ غیر مسلموں کو جہنمی کس طرح کہہ سکتے ہیں، حالانکہ اس علاقے میں ہم نے آج سے پہلے اسلام کا نام بھی نہیں سنا تھا، تو کیا ہمارے باپ دادا جہنمی ہیں؟ اگر مسلمانوں نے ان تک سچا دین نہیں پہنچایا تو اس میں ان کا کیا قصور ہے؟ اس نو مسلم خاتون نے ہم سے رابطہ کیا اور وہ اس سوال کا جواب چاہتی ہے۔ سوال کرنے والا شخص بعد میں مسلمان ہوگیا تھا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسلمان غیر مسلم کے جہنمی ہونے کا حکم اسی شرط کے ساتھ لگاتے ہیں کہ ان تک قرآن کی دعوت خود ان کی زبان میں پہنچ چکی ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

﴿وَ اُوْحِیَ اِلَیَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَ مَنْ بَلَغَ﴾ (الانعام۶؍۱۹)

’’ہم عذاب نہیں کرتے حتیٰ کہ رسول بھیج دیں۔‘‘

لہٰذا جس غیر مسلم کو اسلام کی دعوت پہنچی ہو او روہ کفر پر اڑا رہے وہ جہنمی ہے۔ اس کی دلیل مذکورہ بالا آیات قرآنی ہیں اور ارشاد نبوی ہے۔

(وَالّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَا یَسْمَعُ بِی أَحَدٌ مِن ھَذِہِ الأُمَّۃِ یَھُودِیٌّ وَلاَ نَصْرَانِیٌّ ثُمَّ یَمُوتُ وَلَمْ یُوْمِنْ بِالَّذِی أُرْسِلَتُ أِلَّا کَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ)

’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس مت میں سے جس یہودی یا عیسائی کو میرے (مبعوث ہونے کے)متعلق خبر مل جائے پھر وہ اس (دین) کو قبول نہ کرے جو مجھے دے کر مبعوث کیا گیا ہے، وہ (منکرشخص) جہنمی ہوگا۔‘‘[1]

اس مفہوم کی اور بھی بہت سی آیات او راحادیث موجود ہیں۔ جس شخص کو اس انداز سے اسلام کی دعوت نہیں پہنچ سکی کہ اس پر حجت قائم ہوجائے اس کا معاملہ اللہ کی مرضی پر منحصرہے۔ اس بارے میں علماء کرام کے مختلف اقوال ہیں۔ زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ قیامت کے دن ایسے افراد کی آزمائش کی جائے گی۔ جس نے اس وقت اللہ کے احکام کی تعمیل کی وہ جنت میں جائے گا اور جس نے نافرمانی کی،وہ جہنم میں جائے گا۔ امام بن کثیر علیہ السلام نے آیت مبارکہ

﴿وَ مَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا﴾ (الاسراء۱۷؍۱۵) کی تفسیر کرتے ہوئے یہ مسئلہ واضح کیا ہے ۔ علامہ ابن قیم علیہ السلام نے اپنی کتاب ’’طریق الھجرین‘‘ کے آخر میں ’’طبقات المکلفین‘‘ کے عنوان کے تحت اس مسئلہ پر بات کی ہے۔ ہماری رائے میں مزید استفادہ کے لیء ان کتب کا مطالعہ مناسب ہوگا۔

وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلَّمَ

 اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز فتویٰ (۱۱۰۴۳)


[1]      مسند احمدج:۲، ص:۳۱۷، ۳۵۰، ج:۴، ص:۳۹۶، ۳۹۸۔ صحیح مسلم حدیث نمبر: ۱۵۳۔ مستدرك حاکم ج: ۲، ص:۳۴۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلددوم -صفحہ 100

محدث فتویٰ

تبصرے