السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارا اس مسلمان کے بارے میں اختلاف ہوگیا جو عیسائی کا مذہبی نشان صلیب پہنتا ہے۔ ہم میں سے کچھ نے کہا’’ہم اس سے بحث کئے بغیر اسے کافر قرار دیتے ہیں‘‘ بعض نے کہا’’بلکہ ہم اس سے بحث کریں گے اور اسے بتائیں گے کہ یہ عیسائیوں کا مذہبی نشان ہے۔ پھر بھی اگر وہ صلیب پہننے پر اصرار کرے گا تو ہماسے کافر قرار دیں گے۔‘‘
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس قسم کے مسائل میں تفصیل ضروری ہوتی ہے۔(یعنی ہر شخص کے متعلق ایک ہی فتویٰ نہیں دیا جاسکتا) جب اس شخص کو وضاحت سے سمجھا دیا جائے کہ صلیب پہننا جائز نہیں اور یہ عیسائیوں کا مذہبی نشان ہے اور اس کے پہننے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہننے والا عیسائیوں سے تعلق ظاہر کرنے میں خوش ہے اور ان کے غلط عقائد کو پسند کرتا ہے۔ سمجھانے کے باوجود وہ اس پر اڑا رہے تو اس پر کفر کا حکم لگایاجاسکتاہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿وَمَنْ یَّتَوَلَّہُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْہُمْ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ﴾ (المائدة ۵؍۵۱)
’’تم میں سے جو شخص ان سے دوستی رکھے گا، وہ انہیں میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو یقیناً ہدایت نہیں دیتا۔‘‘ جب مطلقاً ’’ظلم‘‘ کا لفظ بولا جائے تو اس سے شرک اکبر مراد ہوتا ہے۔
اس عمل سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ (پہننے والا) نصاریٰ کے اس غلط عقیدے کی تائید کرتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کردیا گیا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس کی تردید کی ہے اور فرمایا ہے:
﴿وَ مَا قَتَلُوْہُ وَ مَا صَلَبُوْہُ وَ لٰکِنْ شُبِّہَ ﴾ (النساء ۴؍۱۵۷)
’’انہوں نے اس (عیسیٰ علیہ السلام) کو قتل کیا نہ سولی پر چڑھایا، بلکہ انہیں شبہ ڈال دیاگیا۔‘‘
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلَّمَ
اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز فتویٰ (۶۳۹۲)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب