سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(68) دعوت وتبلیغ کی خاطر بے دین ملک میں رہائش اختیار کرنا

  • 8046
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-05
  • مشاہدات : 1153

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 بہت سے مسلمان جو ان ملکوں میں آتے ہی‘ ان کا ارادہ یہاں رہائش اختیار کرنے کا ہوتاہے۔ اسی طرح وہ امریکی شہریت بھی اختیار کر لیتے ہیں۔ کیا ان کا یہ کام جائز ہے جب کہ ملک کفر، شرک اور بے حیائی سے بھرا ہوا ہے، پھر وہ ان  حکومتوں سے کسی طرح دوستانہ تعلق قائم کرتے ہیں اور اس مقصد کے لئے اپنے اسلامی ملک کی شہریت سے دست بردار ہوتے ہیں اور اس ملک کی شہریت قبول کرتے ہیں۔ ایسے افراد کے متعلق اسلام کا کیا حکم ہے جب کہ وہ اسلام کی تبلیغ کے نام پر یہاں رہائش رکھنے کو اپنے لئے جائز قراردیتے ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کسی بھی مسلمان کے لئے ایسے ملک کی شہریت حاصل کرنا جائز نہیں  جس کی حکومت غیرمسلم ہو۔کیونکہ اس کے نتیجہ میں ان سے قلبی تعلق پیدا ہوتاہے اور ان کے غلط کاموں کی تائیدہوتی ہے۔ شہریت حاصل کئے بغیر رہائش اختیار کرنا بھی بنیادی طور پر ہی منع ہے۔

﴿اِنَّ  الَّذِیْنَ تَوَفّٰہُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ  ظَالِمِیْٓ اَنْفُسِہِمْ قَالُوْا فِیْمَ کُنْتُمْ قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ  فِی الْاَرْضِ قَالُوْٓا اَلَمْ تَکُنْ  اَرْضُ اللّٰہِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوْا فِیْہَا فَاُولًٰئِکَ مَاْوٰیہُمْ جَہَنَّمُ وَ سَآئَ تْ مَصِیْرًا٭ اِلَّا ا مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآئِ وَ الْوِلْدَانِ  لَایَسْتَطِیْعُوْنَ حِیْلَۃً وَّ لَا یَہْتَدُوْنَ سَبِیْلًا٭فَاُولٰٓئِکَ عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّعْفُوَ  عَنْہُمْ  وَ کَانَ اللّٰہُ عَفُوًّا غَفُوْرًا﴾

’’جن لوگوں کو فرشتے اس حالت میں وفات دیتے ہیں کہ وہ اپنے آپ پر ظلم کرنے والے ہیں تو فرشے ان سے پوچھتے ہیں تم کس حال میں تھے؟ وہ کہتے ہیں کہ ہم زمین میں کمزور تھے۔ وہ (فرشتے) کہتے ہیں کیا اللہ کی زمین وسیع نہیں تھی کہ تم اس میں ہجرت کرلیتے؟ یہی ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ انجام کی بری جگہ ہے۔ مگروہ (سچ مچ) کمزور مرد‘ عورتیں اور بچے جوکوئی تدبیر نہیں کرسکتے نہ راستہ معلوم کرسکتے ہیں تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو معاف فرمادے گا اور اللہ تعالیٰ معاف کرنے والابخشنے والا ہے۔‘‘

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(أَنَا بَرِیئٌ مَنْ کُلِّ مُسْلِمِ یُقِیْمُ بَیْنَ أَظْھُرِ الْمُشْرِکِینَ)

’’میں ہر مسلمان سے بری ہوں جو مشرکوں میں اقامت رکھتاہے۔‘‘[1]

اس مضمون کی اور حدیثیں بھی ہیں او رمسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ طاقت ہو تو مشرکوں کے ملک سے اسلامی ملک کی طرف ہجرت فرض ہوجاتی ہے۔ لیکن دین کی سمجھ رکھنے والے افراد اور علماء میں سے اگر کوئی مشرکین میں رہائش رکھے تاکہ انہیں دین کی تبلیغ کرسکے اور اسلام کی طرف دعوت دے سکے تو اس پر کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اس اپنے دین کے بارے میں آزمائش میں مبتلا ہونے کاخطرہ نہ ہو اور اسے امید ہو کہ وہ ان پر اثر انداز ہوکر ان کی ہدایت کا باعث بن سکے گا۔

وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِهٖ وَصَحْبِهٖ وَسَلَّمَ

 اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز فتویٰ(۲۱۱۱)


[1]   سنن ابی داؤد حدیث نمبر: ۲۶۴۵۔ جامع ترمذی حدیث نمبر: ۶۰۵ ۱۔ سنن نسائی (مجتبیٰ) ۸؍۶۳

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلددوم -صفحہ 74

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ