السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سوال کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس شخص کے بارے میں جو قرآن مجید اور متواتر احادیث کی قطعی نصوص کی مخالفت کرتاہے۔ اگر کوئی شخص اسے نصیحت کرے اور سمجھائے توکہتا ہے ’’اس کام میں کوئی حرج نہیں‘‘ جب کسی معاملہ میں فیصلہ کرتا ہے تو قرآن وحدیث کے خلاف اور غلط فیصلہ کرتا ہے اور یہ شخص نماز روزہ بھی شاذونادرہی ادا کرتا ہے۔ ا س کی دوستی کافروں، فاسقوں اور بدعقیدہ لوگوں سے ہے۔ وہ اللہ کے حرام کئے ہوئے کاموں کو حلال سمجھتا ہے۔ مثلاً غیر اللہ کے لئے نذر ونیاز‘ شراب نوشی‘ سود‘ رشوت اور اس قسم کے کاروبار جو شرعی طور پر غلط یا ممنوع ہیں اور وہ نصیحت کرنے والے دین دار باعمل علمائے کرام کا مذاق اڑاتاہے اور کہتا ہے یہ تو پاگل ہیں۔ ا سکے علاوہ عہدے حاصل کرنے کے لئے (غالباً ایکشن میں امیدوار بنا مراد ہ) بکثرت مال خرچ کر کے لوگوں کو اپنی طرف مائل کرتا ہے۔ لوگ اپنے مفاد کے لے اس کی طرف مائل ہوتے ہیں مثلاً مجرم کو بری کرانا، مخالفتوں کو جیل بھجوانا، بے گناہوں کو تکلیفیں دینا، جب اسے کوئی عہدہ مل جاتا ہے (غالباً الیکن کی کامیابی یا وزارت وغیرہ کا حصول مراد ہے۔) تو حاکموں سے سفارش کرتا ہے تاکہ جج ظالم کو بری اور مظلوم کو سزا دیں۔ وہ ان غلط کاموں میں پانی کی طرح روپیہ بہاتا ہے۔ (جب وہ کامیاب ہوتا ہے) تو لوگ مبارک باد کہنے آتے ہیں، گاتے اورڈھول بجاتے ہیں۔ اگرچہ وہ کتنا غلط عقیدہ رکھتا ہو۔ کیا ایسے شخص سے دوستی رکھنا شریعت پاک کی روشنی میں جائز ہے یا حرام؟ کیا ایسا شخص مسلمان ہے یا اسلام سے خارج ہو چکا ہے؟ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے، اس مسئلہ کی وضاحت کردیجئے۔ میں نے آپ سے اس لئے یہ مسئلہ پوچھا ہے کہ میں اسے پورے پاکستان میں شائع کرانا چاہتا ہوں۔ لہٰذا گزارش ہے کہ جلدی جواب دیں۔ جزاکم اللّٰہ خیرا۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر واقعی صورت حال ایسی ہے جو آپ نے بیان کی ہے تو ان عادتوں کا حامل شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ اس سے دوستی رکھنا جائز نہیں ہے۔ علمائے کرام کو چاہئے کہ اسے سمجھائیں اور حق کا راستہ دکھائیں اور اس پر حجت قائم کریں، اگر وہ اپنی گمراہی پر اصرار کرے تو مسلمان حاکم کا فرض ہے کہ اسے مناسب شرعی سزا دے۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلَّمَ
اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز فتویٰ (۶۴۶۰)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب