السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جو لوگ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی بعض احادیث کاانکار کرتے ہیں، مثلاً عذاب قبر، معراج‘ جادو، شفاعت اور گناہ گاروں کے جہنم میں جا کر پھر نجات پانے کی حدیثیں۔ ایسے لوگوں کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے؟ کیا کے پیچھے نماز پڑھی جاسکتی ہے؟ ان سے سلام دعا رکھی جاسکتی ہے؟ یا ان سے کنارہ کشی کی جائے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جو علمائے کرام حدیثوں کی صحت اور ان کے معنی ومطلب سے اچھی طرح واقف ہیں انہیں چاہئے کہ ایسے افراد کو ان احادیث کی صحت اور صحیح مطلب سے آگاہ کریں۔ اگر وہ پھر بھی اپنی خواہش نفس کے پیچھے لگ کر نصوص کو اپنی رائے کے مطابق بنانے کے لئے تحریف یا انکار پر اصرار کریں تو وہ فاسق ہیں۔ ان کے شر سے بچنے کے لئے ان سے کنارہ کشی کرنا اور میل جول ترک کرنا ضروری ہے۔ البتہ انہیں نصیحت کرنے اور صحیح بات سمجھانے کے لئے ان سے میل جول جائز ہے۔ ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم وہی ہے جو فاسق کے پیچھے نماز پڑھنے کا ہے۔ احتیاط اسی میں ہے کہ ان کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے۔ کیونکہ بعض علماء نے انہیں کافر قرار دیا ہے۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلَّمَ
اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز فتویٰ (۶۸۳۳)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب