سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(26) شرعی احکام کا مذاق اڑانے والاکافرہے

  • 8003
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 2438

سوال

(26) شرعی احکام کا مذاق اڑانے والاکافرہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اس شخص کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے جو نماز کا تارک ہے، رمضان کے مہینے میں روزے نہیں رکھتا۔ دین کا مذاق اڑاتا ہے اور سنت نبوی کا مذاق اڑاتا ہے مثلاً داڑھی رکھنا یا کپڑا ٹخنوں سے اونچا رکھنا، براہ کرام یہ بھی فرمائیے کہ جو شخص اس قسم کی حرکت کرتا ہے اس کے ساتھ ہمیں کیا سلوک کرنا چاہئے، خواہ وہ بھائی ہو، والد ہو یا دوست ہو؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نمازکو جان بوجھ کرترک کرنے والا اگر نماز کا منکر ہے تو اس کے متعلق علمائے اسلام کا اجماع ہے کہ وہ کافر ہوجاتا ہے اور اگر سستی کی وجہ سے ترک کرے تو اس کے متعلق بھی صحیح قول یہی ہے کہ وہ کافر ہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(وَالْعَھْدُ الَّذِی بَیْنَنَا وَبَیْنَھُمْ الصَّلَاۃُ، فَمَنْ تَرَکَھَا فَقَدْ کَفَرَ) (سنن ترمذی رقم ۲۶۲۳، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ رقم ۱۰۷۹، مسند احمد، ۵/ ۳۴۶، مستدرک الحاکم۱/۷، سنن الدارمی، السنن الکبری البیھقی ۳/۳۶۶، مصنف ابن شیبۃ۱۱/۳۴ وصحیح ابن جبان رقم ۱۴۵۴)

’ہمارے اور ان(یعنی مسلمانو ں اور کافروں) کے درمیان عہد (کی ظاہری علامت) نماز ہی ہے۔ جس نے اسے ترک کر دیا اس نے کفر کیا۔‘‘ حدیث مسند احمد اور سنن اربعہ میں حضرت بریدہ بن حصیب رضی اللہ عنہ  سے صحیح سند کے ساتھ روایت کی گئی ہے۔

اس کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

(بَیْنَ الرَّجُلِ وَبَیْنَ الْکُفُرِ والشِّرْکِ تَرْکُ الصَّلاَۃِ) (صحیح مسلم)

’’بندے اور کفر وشرک کے دمیان حد فاصل ترک نماز ہے۔‘‘[1]

اس حدیث کو امام مسلم نے اپنی کتاب ’’صحیح‘‘ میں روایت کیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی اس مسئلہ کے بہت سے دلائل ہیں۔

او رجو شخص دین اسلام کا مذاق اڑائے یا کسی ایسی سنت کو نشانہ تضحیک بنائے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ مثلاً پوری داڑھی رکھنا، کپڑا ٹخنوں سے اوپر یا آدھی پنڈلی تک رکھنا اور اسے معلوم بھی ہو کہ یہ واقعی سنت ہے، وہ کافر ہوجاتا ہے اور جو شخص کسی مسلمان کو مخص اس لئے مذاق کرے کہ وہ اسلام کے احکام کا پابند ہے تو ایسا شخص بھی کافر ہوجاتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿قُلْ اَبِاللّٰہِ وَ اٰیٰتِہٖ وَرَسُوْلِہٖ کُنْتُمْ تَسْتَہْزِئُوْنَ٭ لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ کَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ﴾ (التوبة۹/ ۶۵،۶۶)

’’کیا تم اللہ تعالیٰ سے، اس کی آیتوں سے اور اس کے رسول سے مذاق کرتے ہو؟ معذرت نہ کرو۔ تم ایمان لانے کے بعد پھر کافر ہوگئے ہو۔‘‘

وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلَّمَ

 اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز فتویٰ (۷۶۵۴)


[1مسند احمد ج۳، ص۳۷۰۔ صحیح مسلم ح: ۸۲۔ ترمذی ح: ۲۶۲۱۔ ابن ماجہ ح: ۱۰۷۸۔ سنن بیہقی ج: ۳ص ۳۳۶۔ مصنف ابن ابی شیبہ، ج۱۱؍ ص: ۳۳ ایمان حدیث نمبر ۴۴،۴۵۔ مروزی تعظیم الصلاۃ حدیث نمبر ۸۸۶۔ مسند ابو یعلیٰ ح: ۱۹۵۳۔ صحیح ابن حبان ح: ۱۴۵۳۔ ابن مندہ۔ ایمان ج: ۲۱۹۔ معجم طبرانی ج ۲ص: ۱۴۔ سنن دارمی ج ۱ص: ۱۴۔ سنن دارمی ج۱ص ۲۸۰۔ دار قطنی ج۲ص ۵۳۔ نسائی ج ۱ص ۲۳۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلددوم -صفحہ 35

محدث فتویٰ

تبصرے